Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Sadia Qureshi
  3. Pink Ribbon, Campaign Ke Naam Par Karobari Sargarmi (2)

Pink Ribbon, Campaign Ke Naam Par Karobari Sargarmi (2)

پنک ربن، کمپین کے نام پر کاروباری سرگرمی (آخری حصہ)

پنک ربن کمپین کے پس پردہ مقاصد کو بے نقاب کرنے والی، میڈیکل سوشیالوجسٹ گیل سولک (gayle sulik) اپنی کتاب پنک ربن بلیوز میں لکھتی ہیں کہ یہ جاننے کے کہ کیا واقعی پنک ربن کمپین کا کینسر کی آگاہی سے زیادہ منافع کمانے سے تعلق ہے، اس نے اکتوبر کے مہینے میں بڑے بڑے شاپننگ مالز میں خواتین سے متعلقہ اشیاء کے سٹوروں کا دورہ کیا۔ وہاں تمام اشیاء گلابی رنگ میں بیچی جا رہی تھیں۔ دکانوں اور سٹوروں کی تزئین و آرائش گلابی رنگ میں کی گئی تھی۔ وہ اشیاء بھی پنک ربن کے لوگو کے ساتھ بیچی جا رہی تھیں جن کا براہِ راست عورتوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔

گیل نے اکتوبر کے مہینے امریکہ ہی میں مختلف ریاستوں کے درمیان سفر کیے۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ امریکی ایئر لائنز میں، ہاتھ صاف کرنے والے نیپکن تک گلابی رنگ تھے۔ گلابی ڈبوں میں کھانے کی اشیاء بند تھیں۔ اس نے نوٹس کیا کہ سڑکوں کے کنارے لگے ہوئے سائن بورڈ بھی پنک ربن کمپین کے تحت گلابی رنگ کے لگائے گئے تھے۔

یہ سارا اہتمام بظاہر، اس لیے تھا کہ بریسٹ کینسر کی آگاہی عورتوں میں زیادہ سے زیادہ دی جائے لیکن حقیقی طور پر اس سارے گلابی پن کا آگاہی سے کوئی تعلق نہ تھا۔ میڈیکل سوشیولوجسٹ گیل نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا اس کے بارے میں کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ پنک ربن کے لوگو(Logo) کے ساتھ بیچی جانے والی اشیاء سے ہونے والی آمدنی کینسر کی بیماری کے حوالے سے بھی خرچ ہوتی ہے۔

ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ یہ آمدنی بریسٹ کینسر کے علاج کے حوالے سے ہونے والی تحقیق اور ریسرچ پر خرچ ہوتی ہے تو پھر یہ ساری کمرشل سرگرمی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کہاں جاتی ہے۔ ان باتوں نے پنک ربن کمپین کو سنجیدہ قسم کے شکوک و شبہات سے دوچار کر دیا ہے۔

اسی ردعمل کے طور پر بہت سی ایسی تنظیمیں وجود میں آ گئی ہیں جو واقعتاً کینسر کے مریضوں کی بہتری اور آگاہی کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں نے اپنے کام اور اپنے خالص جذبے سے پنک ربن کمپین کے پس پردہ منافع خوری اور دولت کمانے کے مقاصد کو بے نقاب کیا ہے۔

مازینہ رفیع، کینڈا میں مقیم ایک پاکستانی خاتون ہیں، بریسٹ کینسر کی آگاہی اور بیماری سے بچائو کے لیے نام کرنے والی تنظیم MammAlive Foundationکے ساتھ کام رہی ہیں اور اس تنظیم کے پاکستانی چیپٹر کی ہیڈ ہیں ان سے میری بات ہوئی تو کہنے لگیں کہ پنک ربن کمپین کے برعکس ہماری تنظیم کا مقصد یہ ہے کہ ہم عورتوں کی رہنمائی کریں کہ وہ کس طرح خود اس موذی مرض سے محفوظ رکھ سکتی مازینہ رفیع نے بتایا کہ ہماری تنظیم اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ہم کینسر کی بیماری کے حوالے سے ایسا شعور اور آگاہی دیں جس سے عورتیں اس بیماری سے محفوظ رہ سکیں۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ

Prevention is better than cure

ہم وہ تمام حفاظتی تدابیر عورتوں تک پہنچاتے ہیں جس پر عمل کرتے ہوئے وہ اس موذی مرض سے بچ سکتی ہیں۔ پھر دوسرے مرحلے پر وہ شعور ہے جو کینسر کا شکار ہو جانے والی مریض خواتین کو دیا جاتا ہے کہ دوران علاج انہیں کن چیزوں سے بچنا چاہیے اور کون سی عادات اپنانی چاہئیں تا کہ دوائیں اور علاج مؤثر ثابت ہو سکے۔

مازینہ رفیع کا کہنا ہے کہ ہم بنیادی طور پر عورتوں کی ذہنی صحت کو بہتر بنانے پر کام کرتے ہیں۔ ایک پرامید سوچ رکھنے والی مریضہ بیماری کو جلد شکست دے سکتی ہے، اس کے برعکس مریضہ کی سوچ پر ایک مایوسی اور نا امیدی کی تاریکی چھا جائے تو بہتر سے بہتر علاج بھی مؤثر ثابت نہیں ہوتا۔

مام الائیو فائونڈیشن کے ساتھ مازینہ رفیع بریسٹ ہیلتھ ایجوکیٹر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اور اب تک سینکڑوں بریسٹ کینسر مریض خواتین کے ساتھ فیس ٹو فیس مختلف ورکشاپس اور سیشن کر چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بریسٹ کینسر سے بچنے کے لیے سب سے اہم اور بنیادی تدبیر جو ہر عورت کر سکتی ہے وہ یہ ہے کہ خود کو ذہنی دبائو سے بچا کر رکھیں۔ یہ کہنا جتنا آسان ہے۔ اس پر عمل کرنا اتنا ہی مشکل ہے کیونکہ ذہنی دبائو اب ہمارے لائف سٹائل کا حصہ بن چکا ہے۔ کام کا دبائو، بچوں کی پڑھائی کا دبائو، مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کی پریشانی، عورتوں کو شوہروں کی بے توجہی کا دُکھ۔ اور تو اور اگر گھر کام کرنے والی مددگار خاتون بتائے بغیر چھٹی کر لے تو اس کا سٹریس۔ ذہنی دبائو کی یہ مختلف شکلیں ہیں، جو رفتہ رفتہ عادت ثانیہ میں ڈھل کر مستقل اینگزائٹی کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور اینگزائٹی ہمارے مدافعتی نظام کی سب سے بڑی دشمن ہے۔

مازینہ رفیع کا کہنا ہے کہ کئی برسوں سے وہ بریسٹ کینسر کا شکار خواتین کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ ان کی زندگی ذاتی کہانیاں سن کر جو حقائق سامنے آتے ہیں وہ یہ ہیں بریسٹ کینسر کی مریضہ، بیماری ہونے سے پہلے کسی نہ کسی جذباتی ٹوٹ پھوٹ سے تنہا گزرتی رہی ہے۔ کوئی نہ کوئی دکھ، رنج، تکلییف جو اسے اندر سے کھوکھلا کر رہی تھی اور جس کی خبر اس کے ساتھ رہنے والوں کو نہ ہو سکی۔ یہ ایموشنل سٹریس، بالآخر پھر کینسر کی صورت میں ظاہر ہوا۔

ماما الائیو فائونڈیشن نے اس حوالے بہت دلچسپ تحقیق کر رکھی ہے کہ وہ مریض خواتین جن کی دائیں بریسٹ کینسر کا شکار ہوئی، انہوں نے اپنی زندگی میں شوہر یا محبوب کی بے وفائی، شوہر شدید عدم توجہ کا زخم سہا تھا اور وہ خواتین جن کی بائیں طرف بریسٹ میں کینسر کی گلٹی ہوئی انہیں اپنے والدین یا اپنے بچوں کی طرف سے کوئی جذباتی صدمہ ملا تھا۔ بریسٹ ہیلتھ ایجوکیٹر مازینہ رفیع کا کہنا ہے کہ خواتین کو چاہیے کہ اپنی غذا کے ساتھ ساتھ اپنی ذہنی صحت کا بھی خاص دھیان رکھیں۔ کوئی بھی ایسا خیال جو ذہنی میں دبائو اور تکلیف پیدا کریں اسے جھٹک دیں۔ اس خاص لمحے میں اللہ کے نام کا ورد کریں۔ اپنی سوچ کو کسی مثبت خیال سے روشن کریں۔ آخری بات میں یہ کہنا چاہوں گی اگر عورتوں کو ذہنی دبائو سے بچانا ہے تو مردوں کی تربیت بھی کرنی پڑے گی۔ ہمارے گھروں میں گھٹن اور جبر کا ماحول ہے۔ عورتیں اپنے مسائل، اپنے ذہنی الجھنیں، اپنے اندر رکھنے کی عادی ہیں اور یہی چیزیں بیماری کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں۔

Check Also

Akbar The Great Mogul

By Rauf Klasra