منو بھائی کو یاد کرنا…!!
منو بھائی کو یاد رکھنا ایک عہد کو یاد رکھنا ہے اور منو بھائی کو بھلا دینا ایک عہد کو بھلا دینا ہے۔ منو بھائی کو یاد رکھنا، انسان کے انسان کے ساتھ تعلق کو یاد رکھنا ہے اور منو بھائی کو بھلا دینا اس تعلق کی خوبصورتی کو بھلا دینا ہے۔ منوّ بھائی کو یاد رکھنا، ڈرامہ ادب اور صحافت کی تاریخ کو یاد رکھنا ہے اور منوّ بھائی کو بھلا دینا ڈرامہ ادب اور صحافت کی تاریخ کو فراموش کر دینا ہے۔ منوّ بھائی کو یاد رکھنا قناعت اور درویشی میں گندھی ہوئی پروفیشنل کمٹمنٹ کو یاد رکھنا ہے اور منوّ بھائی کو بھلا دینا۔ قناعت و درویشی کو بھلا دینے جیسا ہے۔ منوّ بھائی کو یاد رکھنا اپنی دھرتی سے جڑنے اور اپنے لوگوں سے محبت کرنے کو یاد رکھنا ہے اور منوّ بھائی کو بھلا دینا اپنے ہونے کی اس بنیاد کو بھلا دینا ہے۔
منوّ بھائی زندگی کے ہر حادثے اور ہر نامہربانی کے خلاف امید سے لبریز مزاحمت کا نام تھا۔ انہیں بھلا دینا زندگی کے نامہربان سفر میں امید کی بھلا دینا ہے۔ سو ہم منوّ بھائی کو ایک بار پھر یاد کرتے ہیں مگر یاد کیا کرتے ہیں کہ وہ تو ہم نے کبھی بھلائے ہی نہیں۔ ہم نے ان کو نہ بھلایا نہ کبھی یاد کیا۔ یاد کی یہ کیفیت وابستگی اور تعلق کے بہت سے مرحلے گزارنے کے بعد آتی ہے۔ جس میں جانے والا آپ کی یاد اور لاشعور کا حصہ بن جاتا ہے۔ میری نسل کا ہر وہ شخص جسے ادب صحافت اور ڈرامے سے ذرا سا تعلق بھی رہا ہو۔ وہ منوّ بھائی کا نام سنتے ہوئے اور پڑھتے ہوئے بڑا ہوا۔ م
نوّ بھائی نے ہمارے شعور پر پہلی دستک اپنے لازوال کرداروں سونا اور چاندی کے ذریعے دی تھی۔ بچپن کی یادوں میں آج بھی اس بے مثال ڈرامے کی مخصوص دلنواز موسیقی گونجتی ہے۔ لٹھے دی چادر اتّے سلیٹی رنگ ماہیا۔ سکرین پر منظر بدلتے اور لکھا ہوتا تحریر، منوّ بھائی۔ ہدایات راشد ڈار۔ اور پھر کہانی کا پرلطف طلسمانی دروازہ کھل جاتا، گائوں کے دو بھولے بھالے، کردار سونا اور چاندی شہر کے مصنوعی انسانوں کی اصلیت کا پردہ چاک کرتے ہر قسط ایک لطف کا ایک جہان، منوّ بھائی کے قلم کا جادو کردار نگاری سے لے کر ڈرامے کے پھلجڑیوں جیسے مکالموں میں دکھائی دیتا۔ منوّ بھائی سے دوسرا تعارف اخبار میں ان کے کالم گریبان سے ہوا۔ برس ہا برس ہمیں منوّ بھائی کی تصویر کے ساتھ لگے ہوئے گریبان کے لوگو(logo) کو دیکھنے کی عادت رہی۔
منوّ بھائی اپنے اصل رنگ کے ساتھ ان کالموں میں نظر آتے جہاں وہ کسی لاوارث لاش کا تذکرہ کرتے کہ کیسے جیتا جاگتا وجود ریل کی پٹڑی تلے آ کر بے جان ہو گیا۔ منوّ بھائی میں یہ خصوصیت تھی کہ وہ لاوارث لاش کی ادھ کھلی آنکھوں کی مردہ پتلیوں سے بھی مرنے والے کے تشنہ خوابوں اور ناتمام خواہشوں کا جہان دیکھ لیتے اور پھر وہ اپنے کالم میں غریب شہر کے تشنہ آرزوئوں کا نوحہ اس دلگداز انداز میں لکھتے کہ اپنے اپنے گھروں میں ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے ناشتہ کرنے والوں کے لئے نوالہ حلق میں اتارنا مشکل ہو جاتا۔
کبھی جنگل اداس ہے، پڑھ کر دیکھیں، آپ کی اصلی والے منوّ بھائی سے ملاقات ہو گی۔ کالم لکھنے کے خواہش مندوں کو۔ یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ اس کتاب میں شامل ایسے تعزیتی کالم بھی ہیں جو کبھی منوّ بھائی کی پہچان ہوا کرتے تھے۔ منوّ بھائی جب بھی غریب شہر کا نوحہ لکھتے، تو ایسا لگتا کہ جیسا ان کے وجود میں کسی ماں کا دل دھڑک رہا ہے، ایک بار منوّ بھائی نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ ایک ماں نے انہیں کالم لکھنا سکھایا۔ دکھیاری ماں اپنے گمشدہ بچے کی خبر دینے اخبار کے دفتر میں آئی تھی۔ پوچھا گیا کہ تمہارے لڑکے کس رنگ کے کپڑے پہنے تھے۔ ماں اپنی مامتا میں ڈوب کر بولی گھر سے نکلا تھا تو سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے آج اتنے دنوں کے بعد کپڑے سفید نہیں رہے ہوں گے، میلے ہو گئے ہوں گے۔
منوّ بھائی یہ واقعہ اکثر سنایا کرتے تھے اور کہتے کہ ایک ماں کے دل سے لکھنا چاہیے۔ کالم نگار کے لئے بھی احساس کی ایسی ہی لو درکار ہے۔ 19جنوری 2018ء کو منوّ بھائی ایک لمبی علالت کے بعد زندگی سے ہار مانے اور موت کا ہاتھ پکڑ کر ملک عدم کو روانہ ہو گئے۔ امید اور مزاحمت نے انہیں ایسا سخت جان بنا دیا تھا کہ کئی بار بیمار ہو کر موت سے اٹھکیلیاں کر کے واپس زندگی کی طرف لوٹ آئے ایک بار تو پورے بیس دن کے لئے کومے میں چلے گئے۔ اخباروں نے اپنے خاص ایڈیشن بھی ترتیب دے لئے، ٹی وی ان کے پرانے ریکارڈڈ انٹرویو چلنے لگے اور سبھی ذہنی طور پر تیار کہ ابھی؟ خبر آئی کہ آئی۔ خبر کیا آتی منوّ بھائی موت کو آنکھیں دکھا کر زندگی کی طرف واپس لوٹ آئے اور پھر سے اپنے معمول کے کام کرنے لگے جس روز ریڈیو واپس آئے ہمارے لئے عید کا دن تھا۔ منوّ بھائی سے محبت کرنے والے پھولوں کے گل دستے لئے استقبال کو کھڑے تھے۔ موت کو ہاتھ لگا کر زندگی کی طرف واپس لوٹنا مجھے منوّ بھائی کی نظم کے ان مصرعوں جیسا لگا۔ ہونئیں جاندا کرنا پیندا۔ جیون دے لئی مرنا پیندا۔
یاد کا ایک اور منظر ہے۔ 8جولائی 2017میری سالگرہ کا دن تھا۔ ہم نے ارادہ کیا کہ پہلے منو بھائی کی عیادت کریں گے(وہ ان دنوں سخت بیمار تھے) پھر میاں صاحب سالگرہ کا ڈنر ہمیں دیں گے۔ منوّ بھائی کے گھر ریواز گارڈن پہنچے تو وہاں عجیب منظر تھا سارا خاندان کے کے پلنگ کے گرد جمع تھا۔ کوئی سورہ یٰسین کی تلاوت کر رہا ہے، کوئی کلمہ طیبہ اونچی آواز میں پڑھ رہا ہے۔ سب کے ہاتھ پائوں پھولے ہوئے۔ میں سخت پریشان ہوئی ان کے لئے سبزیوں کے سینڈ وچ اور دودھ والی سویاں بنائے لے کر گئی تھی وہ وہیں رکھ دیں اور کہا کہ میں بھی ایک نظر منوّ بھائی کو دیکھ لوں۔ اندر یہ عالم تھا جو میں نے اوپر لکھا۔ منوّ بھائی نے آنکھیں چھت کی طرف لگا رکھی تھیں۔ کسی نے میرا نام بتایا کہ سعدیہ قریشی آئی ہے۔ اسی عالم میں کہا کہ سعدیہ خدا حافظ۔ میرے دوستوں کو میرا سلام کہنا اور پھر فوراً بولے میرا دوست دانیال ٹھیک ہے۔ میرا اسے سلام کہنا۔ کمرے میں سبھی افرادِ خانہ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔