مائیکرو بلاگنگ ڈائری لکھنے کا متبادل نہیں
(گزشتہ سے پیوستہ)انگریزی کی مشہور ناول نگار ورجینیا وولف شروع سے ہی ڈائری لکھنے کی عادی تھی، وہ ڈائری میں اپنی روزانہ کی مصروفیات لکھتی وہ اپنے لاشعور میں گزرے ہوئے احساس کو زبان دیتی۔ یہ تحریریں کسی تکلف اور تصنع سے پاک اس کی ذات کے اندر کے موسموں کا بیان ہیں۔ ایک جگہ ورجینیا وولف نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ صبح کے 10 بجے ہیں اور میں ناول یا تخلیقی تحریر لکھنے کی بجائے ڈائری لکھ رہی ہوں۔ یہ ڈائریاں بعدازاں میرے ناول لکھنے کے تخلیقی عمل میں ایک چارے کا کام سر انجام دیتی ہے۔ ورجنیا وولف کی موت کے بعد اس کے شوہر نے اس کی چھبیس ڈائریوں میں سے چنیدہ تحریروں کو A writer's diaryکے نام سے چھپوایا۔
یہ کتاب بہت مقبول ہوئی کیونکہ ورجینیا وولف کو پڑھنے والے ان تحریری ٹکڑوں میں اپنی پسندیدہ لکھاری کی ذاتی زندگی کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔ ان میں ایک خاتون تخلیق کار اپنے اندر کی دنیا میں شور مچاتی احساس کی تلاطم خیز لہروں کو بغیر کسی تصنع اور تکلف کے بیان کرتی ہے۔ اٹھارویں صدی میں ڈائری لکھنے کا رحجان ایک فیشن کی طرح عورتوں میں مقبول ہوا، شاید اس لیے کہ عورت تو ہے ہی احساسات اور جذبات کے ریشم سے بنی ہوئی اور سماجی دباؤ اسے بلا تکلف اظہار سے روکتا ہے جبکہ ڈئیر ڈائری ایک دیرینہ دوست ایک مرہم ساز رفیق اور ایک ہمدرد سامع بن کر وہ تمام باتیں دھیان سے بغیر کسی روک ٹوک کے سن لیتی ہے جو وہ کسی اور سے نہیں کر سکتی۔ بہت سے ایسے نامور ادیب ہیں، جنہیں لڑکپن سے ہی ڈائری لکھنے کی عادت تھی۔ نامور ادیب فرانز کافکا کو ڈائری لکھنے کی شروع سے ہی عادت تھی، وہ ان ڈائریوں میں اپنے فلسفیانہ خیالات اور احساسات کو قلم بند کرتا اور اپنی کہانیوں کے آئیڈیازتحریر کرتا۔
1910سے1923تک گیارہ سال کے عرصے میں اس نے جو کچھ روزنامچوں کی شکل میں تحریر کیا وہ فرانز کافکا ڈائریز کے نام سے شائع ہوا۔ ادب کی تاریخ میں ایک دلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ شاعر فطرت ورڈز ورتھ جس کا حوالہ اس کی نظم ڈیفوڈلز بنی، اس کی یہ نظم دراصل اس کی بہن ڈروتھی ورڈز ورتھ کی ذاتی ڈائری میں تحریر آبی نرگس کے پھولوں کے بارے میں قلمبند کے گئے احساسات سے مستعار لی گئی۔ یعنی ڈیفوڈلز کی خوبصورتی کا بیان ورڈزورتھ کا اوریجنل خیال نہیں تھا۔ ورڈز ورتھ اور اس کی بہن ڈروتھی۔ لیک ڈسٹرکٹ میں سیر کرنے جایا کرتے تھے جہاں جھیل میں اس نے ڈیفوڈلز کے بے شمار پھول دیکھے۔
پھولوں کی خوبصورتی سے ڈروتھی اتنی متاثر ہوئی کہ اس نے واپس آ کر اپنی ڈائری میں نثر کی صورت میں ان پھولوں کے حسن کی تعریف کرتے ہوئے جو کچھ لکھا وہی کچھ بعد ازاں ورڈزورتھ نے اپنی نظم ڈیفوڈلز میں بیان کیا۔ تمام نقاد اس پر متفق ہیں کہ ڈیفوڈلز کا اوریجنل آئیڈیا ورڈزورتھ کا نہیں بلکہ اس کی بہن ڈروتھی کا تھا۔ غبارِ خاطر کے خطوط جو مولانا ابوالکلام آزاد نے احمد نگر کی جیل سے اپنے دوست کے نام لکھے وہ بھی اصل میں ڈائری لکھنے ہی کی ایک شکل ہے۔ مولانا روزانہ کا احوال ایک خط کی صورت میں لکھتے تھے، وہ خطوط پوسٹ نہیں ہوتے تھے۔ جیل کی تنہائی میں یہ مشق مولانا کو اپنے ساتھ گفتگو کرنے کا موقع دیتی رہی۔ ڈائری لکھنا بھی دراصل اپنے ساتھ گفتگو کرنا ہے۔ اور اس مشق سے اپنے اندر کی بھڑاس بھی نکل جاتی اور اپنے احساس پر جمی ہوئی گرد صاف ہو جاتی ہے۔ انسان ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے۔
دنیا بھر میں نفسیات کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر انسان ڈائری میں اپنی روز مرہ کی پریشانیوں کو لکھ دے تو وہ ڈپریشن اور اینگزائٹی کی شدت سے بچ سکتا ہے اس تکنیک کو جرنل رائٹنگ کا نام دیا۔ جرنل رائٹنگ ایک مکمل تھراپی ہے، جس میں ڈپریشن کا شکار مریضوں کو سائیکالوجسٹ اپنے احساسات اور جذبات کو نوٹ بک میں لکھنے کا مشورہ دیتے کہ آپ ایک کاپی پن لیں اور جو آپ کے ذہن میں آئے اس کو لکھ دیں اور اس کے بعد صفحات کو پھاڑ کر پھینک دیں۔ لیکن اس سرگرمی سے آپ محسوس کریں گے کہ آپ کے ذہن پر پڑا ہوا بوجھ اتر گیا ہے اور آپ ہلکا محسوس کریں گے۔ جرنل رائٹنگ کی ایک تکنیک یہ بھی ہے کہ صبح اور شام صرف پانچ منٹ آپ ایک کاپی لے کر اپنی اس دن کی پانچ نعمتوں کو تحریر کریں جس کے لیے آپ اللہ کے شکر گزار ہیں۔ صرف پانچ منٹ کی یہ سرگرمی آپ کو شکرگزاری کی مثبت توانائی سے بھر دے گی۔ انسان کی ذہنی جسمانی اور جذباتی صحت اس کے اندر موجود مثبت توانائی ہی کی مرہون منت ہے۔
ڈائری لکھنے کی روایت بدلتے ہوئے وقت میں اپنی بدلی ہوئی شکل میں موجود ہے۔ ڈائری کے ساتھ یہ روایت تھی کہ اسے چھپا کر رکھا جاتا کہ مبادا کوئی نہ پڑھ لے جبکہ آج کل کئی لوگ فیس بک کی وال کو اپنی ذاتی ڈائری سمجھ کر اپنے دل کا احوال لکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا ایکسپرٹ کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس پر اپنی روزمرہ کے باتیں لکھنا اپنے احساسات کو زبان دینا یعنی مائیکروبلاگنگ کرنا ڈائری لکھنے ہی کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ کیونکہ یہ ڈیجیٹل دور ہے جب آپ کے موبائل فون میں نوٹس لکھنے کی سہولت موجود ہو تو کون کاپی قلم لے کر اس پر لکھے گا۔ مجھ سمیت آج بھی بہت سے لوگ موبائل ایپ پر نوٹس لینے کی بجائے باقاعدہ ڈائری لکھنا پسند کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ہزاروں لوگوں کے سامنے اپنے دل کا احوال لکھنا کبھی بھی تنہائی کے گوشے میں بیٹھ کر ڈائری لکھنے کے مترادف نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ ڈائری کی روایت یہی ہے کہ یہ آپ کی ذات تک محدود رہے جس تحریر پر بھانت بھانت کے لوگ کمنٹس کریں وہ تحریر ڈائری لکھنے جیسی خوبصورت سرگرمی کا متبادل نہیں ہوسکتی۔