کتابیں کاپیاں، ماسک اور سینی ٹائزر
آج اکتوبر کی پہلی تاریخ ہے۔ گرمیوں کا طویل موسم جو کورونا کے خوف، خدشوں اور مسلسل لاک ڈائون کی اذیت میں بسر ہوا۔ بالآخر بیت گیا ہے۔ آج کم و بیش چھ ماہ کے بعد دانیال کا سکول میں پہلا دن ہے لیکن اس بار بہت کچھ بدل گیا ہے۔ اس کے بستے میں کتابوں، کاپیوں، پنسلوں اور لنچ باکس کے ساتھ ایک خانے میں سینی ٹائزر اور ایک سپیئر فیس ماسک بھی رکھا ہوا ہے۔ اس نے یونیفارم کے ساتھ اپنے منہ پر ایک حفاظتی شیلڈ بھی پہن رکھی ہے اور ساتھ ہی اپنا خوبصورت چہرہ آدھا ماسک سے ڈھکا ہوا ہے۔ سکول میں اسے اپنے ہم جماعتوں سے تین فٹ کے فاصلے پر رہنا ہے۔ اگرچہ چھ ماہ کے بعد سکول جاتے ہوئے وہ بہت پرجوش تھا مگر اسے اس بات کا احساس بھی ہے کہ اس نے اپنے کسی دوست سے ہاتھ نہیں ملانا، اسے گلے نہیں ملنا۔ بلکہ ان سے فاصلے پر رہنا ہے وہ جانتا ہے کہ ابھی کچھ عرصہ تو دوستوں کے ساتھ پہلی والی موج مستی نہیں ہو سکتی۔ کلاس میں تین فٹ کے فاصلے پر رکھے ہوئے بنچوں پر بیٹھا وہ اپنے ان کلاس فیلوز کو یاد کرتا ہے جو آج کے گروپ میں شامل نہیں ہیں۔ حفاظتی اقدام کے طور پر ساری کلاس ایک روز نہیں آتی۔ آدھی کلاس گروپ Aمیں شامل ہے اور آدھی کلاس گروپ B میں۔ الٹر نیٹ دنوں پر دونوں گروپ سکول آتے ہیں تاکہ کورونا سے بچائو کے لئے حفاظتی تدابیر پر عمل کیا جا سکے اور بچوں میں باہمی فاصلہ برقرار رہے۔
وہ اپنے کلاس فیلوز کے چہرے نہیں دیکھ پاتا۔ اس کی طرح سب بچوں نے منہ پر ماسک پہنے ہوئے ہیں۔ چالیس منٹ کی کلاس میں چہرے کو مسلسل ماسک سے ڈھک کر بیٹھنا لازمی ہے کبھی کبھی اسے الجھن ہونے لگتی ہے ماسک اتارنے کو بھی جی چاہتا ہے مگر پھر وہ رک جاتا ہے، کیونکہ اسے احساس ہے کہ ماسک پہنے رکھنا ضروری ہے۔ ابھی چالیس منٹ کے بعد کلاس ختم ہو گی تو ٹیچر ان سب کو دس پندرہ منٹ کی بریک کے لئے باہر لے کر جائیں گی جہاں وہ اپنے ماسک اتاریں گے، کھلی فضا میں سانس لیں گے اور ایک دوسرے کے چہرے کو دیکھ سکیں گے اگر چہرے پر لگایا ہوا ماسک ٹوٹ جاتا ہے یا کسی وجہ سے قابل استعمال نہیں رہتا تو وہ اچھے بچوں کی طرح اپنے بستے سے دوسرا ماسک نکال کر لگا لے گا۔ اب لنچ ٹائم ہے مگر لنچ ٹائم بھی اب پہلے جیسا نہیں رہا پہلے ٹیچر بچوں کو گروپ کی صورت بٹھا دیتی تھیں اور انہیں ایک دوسرے سے لنچ شیئر کرنے کا بھی کہتی تھیں۔ یہ زندگی کو مل بانٹ کر گزارنے کی تربیت کا ایک حصہ تھا کہ کبھی کبھار آپ اپنے دوستوں کے ساتھ لنچ شیئر کریں مگر اب سارے بچے فاصلے پر بیٹھے ہوئے لنچ کرتے ہیں اور انہیں ہدایات ہیں کہ وہ اپنا لنچ شیئر نہیں کریں گے۔ وہ دور دور سے ایک دوسرے لنچ باکس میں جھانکتے ہیں کہ ان کے دوست آج لنچ میں کیا لے کر آئے ہیں۔ چھٹی کا وقت جسے بچے ہوم ٹائم کہتے ہیں وہ بھی تو پہلے جیسا نہیں رہا، پہلے ہوم ٹائم میں دوست آپس میں مل کر خوب مستی کرتے تھے مگر اب وہی فاصلے کو برقرار رکھنا ہے، ہاتھوں کو سینی ٹائزر کرنا ہے اور ماسک پہنے رکھنے والی ہدایات پر عمل کرنا ہے۔
کورونا کے بعد تعلیمی ادارے مرحلہ وار کھلے ہیں۔ تیسرے مرحلے میں پہلی کلاس سے پانچویں کلاس کے بچے 28ستمبر سے اپنے اپنے سکولوں میں جا رہے ہیں۔ معاشی بنیادوں پر ہمارے ہاں جتنے طبقے پائے جاتے ہیں اتنے ہی اقسام کے تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں۔ زیادہ فیس لینے والے سکول جنہیں A۔ اے کیٹگری میں شمار کیا جاتا ہے وہاں ایس او پیز پر عملدرآمد ہو رہا ہے دوسرے درجے پر Bکیٹگری کے سکول ہیں۔ وہاں بھی کسی حد تک عمل ہو جاتا ہے مگر سکول جو گلی محلوں میں کھلے ہوئے ہیں۔ ان سکولوں کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں کہ وہ مکمل طور پر ایس او پیز پر عمل کروا سکیں۔ کیا وزارت تعلیم نے کوئی ایسا نظام بنایا ہے کہ جو مسلسل ان سکولوں پر نگاہ رکھے اور ایس او پیز پر عملدرآمد کے معیار کو چیک کرے۔ ہمارے ہاں روایت یہی رہی ہے کہ زبانی کلامی یا فائلوں یک حد تک بہت کچھ ہوتا ہے اور پوری دیانت اور ذمہ داری کے ساتھ عملی صورت میں یہ سب کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ بچے چھ ماہ کے بعد سکولوں میں گئے ہیں تو اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ ان پر تعلیمی سرگرمیوں کا بوجھ بھی اتنا ہی ڈالیں جتنا وہ اٹھا سکیں۔ مثال کے طور پر نارمل حالات میں سکول ایک تعلیمی سال کے دوران جتنا سلیبس کور کرواتے ہیں اتنا ہی سلیبس ان حالات میں کور نہیں ہو سکتا۔ حقائق کو مدنظر رکھیں تو بچوں نے مسلسل چھ ماہ چھٹیاں کی ہیں۔ کچھ نہ کچھ آن لائن پڑھائی ہوتی رہی ہے مگر سکولوں نے اپنی حد تک نصاب کور کروانے کی کوشش کی مگر گھروں میں بچوں نے کتنے دھیان سے پڑھایا کتنا سیکھا، اس کو بھی دیکھنا ضروری ہے۔ اب بھی بچے پورا ہفتہ سکول نہیں جائیں گے کہیں تین دن اور کہیں دو دن کا سکول ہے۔ یقینا یہ نارمل حالات نہیں ہے اس لئے ان حالات میں تعلیمی نصاب بھی اتنا ہی رکھیں جتنا بچے اپنے اندر جذب کر سکیں۔
کراچی سے یہ تشویش ناک خبریں آ رہی ہیں کہ کچھ علاقوں میں کورونا پھر سے سر اٹھا رہا ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ لوگوں نے عام میل ملاپ شادی بیاہ اور دیگر محفلوں میں احتیاطی تدابیر کرنا چھوڑ دی ہیں۔ خدا نہ کرے کہ پھر سے وہی صورت حال پیدا ہو جو پہلے تھی بیماری کے پھیلائو کے بہت مشکل حالات ہم نے دیکھے ہیں۔ اب اللہ نے کرم کیا ہے کورونا سمٹ رہا ہے اور خدا خدکرکے تعلیمی ادارے کھلے ہیں ابھی کورونا مکمل ختم نہیں ہوا تو ہر ذمہ دار شہری کا فرض ہے کہ وہ حفاظتی تدابیر پر پوری طرح عمل کرے اور جہاں دیکھے کہ ان ایس او پیز کو نظر انداز کیا جا رہا ہے وہاں انہیں ضروری باور کروائے۔
حکومت پنجاب کھلنے والے ہزاروں سکولوں میں نگرانی کا کوئی موثر نظام بنائے۔ لاکھوں بچے جو پہلے گھروں میں تھے، اب سکولوں میں جا رہے ہیں۔ ان بچوں کی صحت کی حفاظت۔ اب والدین کے ساتھ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے اور یہ چیک اینڈ بیلنس کا موثر نظام بنا کر ہی ممکن ہے۔