دینے والے کا برتن بھرا رہتا ہے
انسان بنیادی طور پر جمع کرنے کی خواہش میں مبتلا ہے، ہم اسی لئے تھڑ دلے ہیں۔ دینے سے گھبراتے ہیں۔ ساری عمر چیزیں، مال، جائیدادیں، کپڑے، جوتے، بنگلے، فلیٹس برتن زیورات، فرنیچر اور نہ جانے کیا کیا جمع کرتے رہتے ہیں۔ سال ہا سال بہت سی غیر ضروری چیزیں ہمارے گھروں میں پڑی رہتی ہیں، سٹوروں میں دیمک زدہ ہو جاتی ہیں، مگر ہم انہیں کسی کو دینے کا حوصلہ نہیں پاتے۔
ایک گھر میں آنے والی بہو کے ہاتھ۔ اپنی ساس کا ایک پرانا صندوق لگا، جو سٹور کے سامان میں دھنسا پڑا تھا۔ صندوق پر زنگ آلود تالا تھا، جس کی چابی بھی گم ہو چکی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ صندوق سال ہا سال سے بند پڑا ہے۔ ساس ایسی بیماری میں مبتلا تھی کہ نہ بات کرنے کی پوزیشن میں تھی نہ ہوش و حواس اپنی جگہ قائم تھے۔ زنگ آلود تالا توڑنا پڑا۔ صندوق میں قیمتی ساڑھیوں کا ڈھیر تھا۔ اطلس، ریشم سلک، کمخواب کی حسین ساڑھیاں تہہ در تہہ ایک دوسرے کے اوپر پڑی تھیں۔ نوجوان بہو کو تو لگا جیسا خزانہ ہاتھ آ گیا ہے۔ اب وہ ان سے خوبصورت کرتے دوپٹے بنائے گی جیسے ہی اس نے اوپر پڑی کیسری اور سنہری پھولوں والی ساڑھی کو اٹھایا تو اس کے ہاتھ میں کیسری رنگ ساڑھی کی ایک دھجی سی آ گئی۔ ہائیں یہ کیا؟ باقی ساڑھیاں بھی زمانوں سے بند صندوق میں پڑے رہنے سے دھجی دھجی ہو رہی تھیں۔ جو چند ایک مضبوط بچ رہی تھیں۔ ان پر صندوق میں پڑے پڑے ایسے پیلے دھبے لگ چکے تھے جو دھونے سے بھی نہ اترتے۔ بہو نے بستر مرگ پر بیمار پڑی ساس کو دیکھا اور سوچا ساری زندگی سنبھال کر رکھنے والی ساڑھیاں کسی کے کام نہیں آئیں۔ قیمتی اطلس و کمخواب وقت کی گرد میں دھجی دھجی ہو گیا۔ کاش آپ اپنا دل بڑا کرتیں اور کسی کو یہ سب دے دیتیں تو کسی کے شاید یہ کام آ جاتا۔
ہمارے ہاں یہ رجحان بڑی شدت سے موجود ہے کہ ہم آنے والے وقت کے لئے چیزوں کو جوڑ جوڑ کر رکھتے ہیں۔ لیکن یوں نہ خود انہیں استعمال کرتے ہیں نہ کسی ضرورت مند کو دینے کا حوصلہ پاتے ہیں۔ فیس بک پر خواتین کے ایک گروپ میں ایک خاتون نے پوسٹ شیئر کی کہ ان کے بچوں کے پاس ہاٹ ویلز چھوٹی کھلونا کاریں موجود ہیں، اب بچے ان سے نہیں کھیلتے تو ان کو کیسے استعمال کیا جائے۔ نوے فیصد عورتوں نے مشورہ دیا کہ انہیں کمروں میں سجا دیں ان کے لئے شوکیس بنوا کر اس میں سجا دیں۔ ایک خاتون تو اس انوکھے آئیڈیا کے ساتھ سامنے آئیں کہ انہوں نے اپنے بچوں کی پرانی ہاٹ ویلز کو گلیوں سے ڈسٹ بن پر چپکا کر اسے سجایا ہے۔ اس سے فوٹو فریم بنائے ہیں۔ مجھ سمیت کسی ایک دو نے کہا کہ آپ یہ کھلونے ضرورت مند بچوں کو دے دیں۔ مجھے اس وقت غریب جھگیوں والے بچوں کا سکول آبرو یاد آ گیا جو روبینہ نامی ایک عظیم خاتون کئی سالوں سے چلا رہی ہیں کئی سال پہلے میں ان کے سکول کے لئے پلے گروپ میں ننھے غریب بچوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔ ان کی کلاس کے کمرے کو ٹوٹے ہوئے رنگین کھلونوں سے سجایا گیا تھا۔ بچوں کی دلچسپی کا کچھ بھی پرانا سامان کلاس میں پڑا تھا۔ یہ سب دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے، مجھے یاد ہے روبینہ نے کہا تھا کہ میری درخواست ہے کہ لوگ اپنے بچوں کے پرانے کھلونے بچی ہوئی رنگین پنسلیں ڈرائنگ کی کاپیاں ہمیں دے دیا کریں۔ ہمارے غریب بچے اسی کی مدد سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔
چیزوں کو جوڑ جوڑ کر رکھنے کا مرض عورتوں میں زیادہ عام ہے وہ اسے اپنے سگھڑاپے اور سلیقے سے تعبیر کرتی ہیں۔ کسی حد تک درست کہ زندگی کو سمجھداری سے گزارنا چاہیے اپنی چادر کے مطابق پائوں پھیلائیں۔ لیکن یہ کہاں کا سلیقہ کہ چیزوں کو سنبھال کر رکھنے کے خبط میں نہ خود استعمال کریں نہ کسی اور کو کرنے دیں۔ میں نے دیکھا کہ جہیز نے سامان کے ساتھ عورتوں کی جذباتی وابستگی انہیں دل کا کنجوس بنا دیتی ہے۔ پچیس پچیس سال پیٹیوں میں جہیز کا سامان پڑا رہتا ہے۔ مجھے تو ایسی عورتوں پر ترس آتا ہے پوری زندگی، چاہ سے خریدا گیا سامان خود استعمال کر کے بھی دل کو راضی نہیں کیا۔ شاید کل سے جڑے ہوئے خدشے اور وسوسے ہمیں عدم تحفظ میں مبتلا رکھتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کسی ضرورت مند کو کچھ دے بیٹھیں تو خود کسی کمی کا شکار ہو جائیں۔
میرے عزیز قارئین:زندگی میں دینا سیکھیں ہمارے گھروں میں بے شمار ایسے برتن ہیں جو سال ہا سال سے استعمال نہیں ہوئے، الماریاں ایسے کپڑوں سے بھری پڑی ہیں جو استعمال میں نہیں لیکن ہم انہیں جی سے لگائے رکھتے ہیں کہ دینے کا حوصلہ نہیں پڑتا۔ سردیوں کا موسم ہے کئی فالتو سویٹرز کمبل، گرم کپڑے جو ہمارے استعمال میں نہیں لیکن ہم نے اپنے گھر کو اس سامان سے بھر رکھا ہے، یہاں تک کہ گھروں میں پرانا فرنیچر سٹور روم میں پڑا دیمک زدہ ہو رہا ہے، آئندہ استعمال میں آنے کا کوئی چانس نہیں لیکن کسی کو دینے کا حوصلہ بھی نہیں۔ یقین کریں ان ساری چیزوں پر کسی ضرورت مند کا حق ہے۔ وہ تمام اشیاء جو برسوں سے ہمارے استعمال میں نہیں مگر انہیں اس لئے سینت سینت کر رکھتے ہیں کہ کسی کو دینے کا حوصلہ نہیں۔ دل بڑا کریں تو کسی ضرورت مند غریب رشتہ دار کو دے دیں۔ ہمارے گھروں میں پڑی یہ تمام غیر ضروری چیزیں کسی کی زندگی کا ضروری سامان بن جاتی ہیں اور دینے کے ساتھ اللہ نے ایک معجزہ جوڑ رکھا ہے کہ دینے والے کو کبھی کمی نہیں ہوتی۔ اس کا برتن ہمیشہ بھرا رہتا ہے۔