Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Sadia Qureshi
  3. Chaye Ke Cupp Mein Lahoo Ghul Gaya

Chaye Ke Cupp Mein Lahoo Ghul Gaya

چائے کے کپ میں لہو گھل گیا

کل ستائیس اکتوبر کی صبح خوشگوار تھی۔ دانیال کا آج سکول ڈے تھا۔ کورونا کے بعد سکولوں کی روٹین بدل چکی ہے۔ بچے ہفتے میں دو یا تین دن اپنے تعلیمی اداروں میں جاتے ہیں۔ جس روز ہمارا ننھا طالب علم سکول جاتا ہے۔ اس صبح گھر بہت پیاری سرگرمی سے بھر جاتی ہے۔ یونیفارم، ناشتہ، فیورٹ لنچ باکس کی تیاری، پانی کی بوتل، بستے میں کتابیں جومیٹری اور دیگر ضروری اشیاء کو ایک بار پھر ری چیک کرنا اور ساتھ ہی ساتھ دل میں دعائیں پڑھتے جانا۔ کورونا کے بعد جب بچے سکولوں، مدرسوں میں جاتے ہیں تو وہمی مائوں کے دل ڈرے رہتے ہیں۔ صدقہ خیرات اور دعائوں میں زیادہ تسلسل آ گیا ہے۔

تو میں 27اکتوبر کی صبح کا ذکر رہی تھی جو ایک خوبصورت سرگرمی سے بھری اور خوشگوار تھی۔ باورچی خانے میں تازہ پیک کیے ہوئے ایپل مفنزMuffensi (سیب کا کیک) کی خوشبو پھیلی تھی۔

دانیال کو سکول چھوڑنے کے بعد آ کر ٹی وی پر خبریں لگائیں اور چائے کا بھاپ اڑاتا کپ اور تازہ پیک ہوا، سیب کے کیک کا ایک ٹکڑا ابھی میں نے کھانا شروع کیا کہ ٹی وی سکرین پر پشاور سے بچوں کے مدرسے میں دھماکے کی خبریں آنے لگیں۔

یا اللہ خیر! بے ساختہ منہ سے نکلا۔ پشاور میں اے پی ایس کا حادثہ۔ لہو میں ڈوبے ہوئے سبز رنگ کی جرسیاں اور سفید یونیفارم شرٹیں۔ لاوارث بستوں سے باہر گری ہوئی کتابیں کاپیاں۔ وہ قیامت خیز منظر ابھی ہمارے شعور میں پھوڑی ڈالے ہوئے ہے۔ سو، مدرسے میں ہونے والے دھماکے کی خبر سے خیال فوراً اسی طرف گیا۔ معمول کے پروگرام رک گئے اور خبریں دھڑا دھڑ آنے لگیں۔ تازہ پیک کیا ہوا سیب کا کیک بدمزہ ہو گیا تھا اور چائے میں جیسے لہو گھل گیا ہو۔ آنکھیں آنسوئوں سے بھر رہی تھیں۔ یہ ابھی دیر کالونی زگرآباد کے مدرسے کا دکھ نہیں تھا، یہ تو میں اپنے اے پی ایس کے شہید بچوں کو یاد کر رہی تھی۔ وہ قیامتیں جو گزر گئیں، تھیں امانتیں کئی سال کی۔ تو وہ قیامت بھی ایک امانت کی طرح ہمارے اندر بین کرتی رہتی ہے۔ کیسے مائوں کے شہزادوں کو دشمنوں نے لہو میں نہلا دیا تھا۔

اور اب ایک بار پھر، وہی قیامت، پشاور شہر پر ٹوٹی تھی۔ پشاور کی مائوں کے دلوں کو ایک بار پھر، دہشت گردی کے خنجر نے چیر ڈالا اور باپ اپنے بچوں کے جنازے اٹھا کر ایک لمحے میں بوڑھے ہو گئے۔ وحشت اور بربریت کی داستان پشاور میں دھرائی گئی ہے۔ اس بار ٹارگٹ، اے پی ایس جیسا جدید سکول نہ تھا، اس بار دشمن کے نشانے پر دیرکالونی کا مدرسہ تھا، جہاں دین کا علم بانٹا جاتا ہے۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ یہاں دنیاوی تعلیم کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا۔ طالب علموں کی عمریں، 8سال سے 35برس تک تھیں۔

صبح کا وقت تھا، اللہ کا ذکر ہو رہا تھا۔ مدرسے کی پاکیزہ فضاء میں آیات قرآنی کی گونج تھی۔ کوئی بدبخت آیا اور بارود سے بھرا ہوا بیگ عین اس جگہ چھوڑ کر چلتا بنا جہاں بچے درس قرآن لے رہے تھے۔ پھر دھماکہ ہوا۔ اتنا خوفناک کہ پورے شہر میں سنا گیا۔ پاکیزہ معصوم چہروں والے، سروں کو ٹوپیوں سے ڈھانپے ہوئے، ہل ہل کر قرآن یاد کرنے والے۔ لہو میں نہا گئے۔ کچھ بری طرح جھلس گئے?

شہرِ گل کی روح پر ایک اور گہرا گھائو لگا ہے۔ خبروں کی اپ ڈیٹس آ رہی ہیں۔ فالواپ ہوتا رہے گا، مگر دہشت گردی اس وحشت اور بربریت نے جن گھروں کو اجاڑا، جن دلوں کی بستیاں پامال کیں، ان پر یہ قیامت ان کے آخری سانس تک بیتتی رہے گی۔ قرآن پڑھتے ہوئے بچوں پر حملہ کرنے والا دشمن مسلمان نہیں ہو سکتا۔ ایسا ہی ایک ہولناک سانحہ افغانستان میں بھی پیش آیا تھا۔ سینکڑوں بچے ختمِ قرآن کی روح پرور تقریب میں موجود تھے۔ ان پر ڈرون گرائے گئے، سفید پاکیزہ لباسوں والے بچے لہولہان ہو گئے۔ کچھ عرصہ سے ملک میں دہشت گردی کے واقعات پھر سے سر اٹھانے لگے ہیں۔ پہلے کراچی اور پھر کوئٹہ سے بم دھماکوں اور انسانی جانوں کے زیاں کی خبریں اور اب پشاور میں مدرسے پر ہونے والے ظلم کے اس وار نے سماج میں عدم تحفظ کو اور بڑھا دیا ہے۔ پشاور میں صورت حال زیادہ سنگین ہو گی جس شہر کے طالب علم بچوں پر دشمنوں کایہ دوسرا گھنائونا وار ہو، اس شہر کے سکولوں، کالجوں اور مدرسوں میں پڑھنے والے بچوں کی ذہنی حالت اور والدین کے عدم تحفظ کے احساس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ سانحے کے بعد روایتی بیانات کا سلسلہ بھی ایک روایت ہے۔ دشمن کا بزدلانہ حملہ، ہم امن تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، غم زدہ لواحقین کے ساتھ کھڑے ہیں ?وغیرہ وغیرہ۔ ساتھ ہی مرنے والوں کے لیے 5لاکھ اور زخمیوں کے لیے 2لاکھ مالی امداد کا سرکاری اعلان بھی۔ جو بسا اوقات صرف اعلان ہی رہ جاتا ہے۔

خبر کی انڈسٹری کے لیے یہ سانحہ محض ایک بڑی خبر ہے، جس کے فالو اپ کے لیے معمول کی نشریات روکی جاتی ہیں۔ مگر جن خاندانوں پر یہ قیامت گزری ہے، ان کی تکلیف کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ طالب علم گھروں کو واپس نہیں لوٹے تو والدین کو چین کیسا؟ ستائیس اکتوبر کا قیامت خیز دن ان کے اندر بین ڈالتا رہے گا اور وہ حساس دل لوگ بھی جو اے پی ایس کو نہیں بھلا سکے۔ انہیں یہ سانحہ بھی ایک دکھ کی طرح یاد رہے گا۔ جب 27اکتوبر کی ایک خوشگوار صبح، پشاور کی دیر کالونی میں قرآن پاک پڑھتے ہوئے بچوں پر حملے کی خبر آئی، تو دل ڈوب سا گیا تھا۔ بھاپ اڑاتا چائے کا کپ بدمزہ ہو گیا جیسے چائے میں لہو گھل گیا ہو?!!

Check Also

Akbar The Great Mogul

By Rauf Klasra