پھر سے ایسی غم گساری، پھر ترے وعدے وہی

جنگل کے عین وسط میں موجود بازار کی گہما گہمی عروج پر تھی، جانور ہاتھ میں تھیلے لٹکائے جھوم رہا تھا۔ کچھ جانوروں کو خصوصی پیکیج بھی دیئے گئے تھے اور وہ امدادی تھیلے لہرا رہے تھے۔ خرگوش نے اس بات پر واویلا مچا رکھا تھا کہ اس کی بیس تصویریں کھینچ کر ہر موڑ پر چسپاں کی گئی ہیں اور امدادی پیکیج سے صرف دو کلو گاجریں برآمد ہوئی ہیں۔
یہ شکوہ ہرن اور بارہ سنگھے کو بھی تھا۔ ہرن اور بارہ سنگھا اپنی کہانی کو نیا موڑ دینے کی خواہش لیے جنگل میں موجود واحد پارلر سے سرجری کے پیکیج پتہ کر رہے تھے۔ سرجری کے پارلرز میں ہوشربا اضافہ بھانپتے ہوئے حجام نے سرجری شروع کر دی تھی۔ ایک درخت کی شاخ پر بلبل نہیں، بلکہ بوڑھا بندر اداس بیٹھا تھا۔ نہ تو اسے اٹھکیلیاں سوجھ رہی تھیں اور نہ ہی اسے ایک درخت سے دوسرے درخت تک چھلانگوں میں کوئی دلچسپی نظر آ رہی تھی۔ اس کے ہاتھ میں اپنا ٹوٹا ہوا فون موجود تھا۔ جسے بندر بار بار جھٹک کر چیک کرتا کہ امدادی پیکیج یا عیدی کا کوئی جوابی پیغام تو نہیں آیا۔
بوڑھے بندر کی اداس نظریں ٹوٹے ہوئے فون پر تھیں اور جنگل میں ڈھنڈیامچی تھی کہ بندر "ٹوٹے" دیکھ رہا ہے۔ لومڑی نے بندر کی فون پر منہمک تصویر کھینچ کر "جنگل میں منگل" کا کیپشن بھی لگا دیا تھا۔ دراصل بندر پریشان تھا۔ اس بار اس کو تنخواہ نہیں ملی تھی۔ بندر کی ڈیوٹی تبدیل ہوئی تھی اب وہ دوسرے درخت پر ٹرانسفر کر دیا گیا تھا اور ہزارہا کوششوں کے باوجود ہنوز تنخواہ کا امکان تک نہ تھا۔
بندر کو وہ وقت یاد آگیا جب وہ بلیوں کی روٹی بھی کھا جایا کرتا تھا۔ اب سامراجی بندر بانٹ نے سب تلیا پلٹ کر دیا تھا۔ شنید تھی کہ اس عید پر جنگل کا کوئی جانور بھوکا نظر نہیں آئے گا۔ بندر کو یہ خبر سن کر جھرجھری آ گئی۔ بندر لفظوں کے کھیل سے بخوبی واقف تھا۔ بندر جانتا تھا کہ نظر آنے اور حقیقی تصویر میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اس لیے تنخواہ کے متعلق اس کی رہی سہی امید بھی دم توڑ گئی۔
وہ زہر دیتا تو سب کی نگہ میں آ جاتا
سو یہ کیا کہ مجھے وقت پہ دوائیں نہ دیں
فوری طور پر اس کا خیال انسانوں کی طرف گیا۔ ٹرانسفر ہونے والے بے شمار سرکاری ملازمین اس بار عید پر تنخواہ سے محروم تھے۔ عیداں تے شبراتاں پر بھی وہ مزدور کے پسینے سے زیادہ اس اجرت کے بارے سوچ رہے تھے، جس نے ان کا خون خشک کر دیا تھا۔ عید سے پہلے تنخواہ ادا کرنے کی یاد دہانی اور نوٹیفکیشنز کے باوجود یہ غفلت کوئی نئی بات نہ تھی۔ بندر جانتا تھا کہ بقایا جات کے منتظر اساتذہ بھی 2021ء سے محروم چلے آ رہے ہیں۔
عیدی پیکیج، امدادی رقوم، غربت مکاؤمہم میں مزدور کی اجرت وقت پر ادا کرنا اور سرکاری ملازمین کی تنخواہ کی ادائیگی یقینی بنانے کا کہیں ذکر تک نہ تھا۔ بندر نے شکر ادا کیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح پھل، پتے کھا کر گزارہ کر لے گا۔ سوال انسانوں کا تھا۔ دوسری طرف عیدی پیکیج اور امدادی رقوم نے نیا سیاپا ڈال رکھا تھا۔ مخصوص نمبرز پر میسج بھیجنے میں ایک دوڑ لگی تھی۔ بہت سے حق دار لوگوں کے امداد کے لئے بھیجے جانے والے پیغام وہ خط بن چکے تھے، جن کے جواب کبھی نہیں آتے۔ قاصد سے زیادہ کیدو اور وِلن کا زمانا تھا اور ہاہاکار مچی تھی۔
جنگل میں اب کان لے کر بھاگنا عام سی بات تھی۔ عقل، سوجھ سمجھ اور تنقیدی شعور سے عاری بندر درخت درخت اچھل رہے تھے۔ شاخوں سے لٹکے بندر یہ تک نہیں جانتے تھے کہ یہ شاخ کس درخت کی ہے، لیکن ان کی زبان اول فول بکتے جارہی تھی۔ بندروں کیا جنگل کے ہر جانور کو علم تھا کہ اب یہ سب ہی بکتا ہے۔ یہ پرانی بات تھی کہ کاغذی پھولوں سے خوشبو نہیں آ سکتی۔ اب کاغذی اور برقی کاروائی کا دور تھا۔ اس تشہیر میں خوشبو نما بدبو تھی۔ جو کاغذوں کی پیٹ بھرنے پر مامور کی گئی تھی۔
پہلے بھوکا چاند کو روٹی سمجھ سکتا تھا اور بڑھیا کے چرغہ کی کہانیاں بھی لکھی جاتی تھیں۔ اب روٹی سے پہلے حلف جمع کروانا پڑتا تھا۔ اصل سوال یہ تھا کہ کیا تنخواہ کی ادائیگی کا جدید طریق نہیں وضع کیا جانا چاہئے۔ کئی بار ٹرانسفر ہونے والے ملازمین دو، تین ماہ تنخواہ سے محروم رہتے ہیں۔ اس دوران وہ کن تکلیف دہ حالات سے گزرتے ہیں اور تنخواہ حاصل کرنے کے لئے کوئی قابل عمل فوری App موجود نہیں کہ ملازمین فلاں نمبر پر میسیج کریں اور تنخواہ پا لیں۔ فراڈ کے نت نئے طریقوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حقوق کا کوئی والی وارث نہیں۔ کاغذی کاروائی کا حلف جمع کروا کے ملازمین کو کم از کم تنخواہ تو دی جائے۔
امدادی پیکیجز سے کہیں اہم حق دار کو حق دینا ہے۔ کیا ہم نے طے کر لیا ہے کہ پھیلے ہاتھوں پر ہی روٹیاں رکھی جائیں گی۔ بجلی و گیس کے بل ہیں جن کی قیمتوں میں ہر مہینے اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ توانائی کی قیمتوں میں ہونی والے اضافے سے صنعتی شعبے پر پڑنے والے منفی اثرات بھی عوام کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ مزید برآں عوام جب اپنی سہولت کے انتظامات کرتی ہے تو اس پہ بھی ٹیکس لگا دیا جاتا ہے، جس کی تازہ مثال سولر پینل اور نیٹ بلنگ کا نیا شوشہ ہے۔ اگر عوام مخالف رویہ یونہی برقرار رہا تو غریب تو غریب متوسط طبقہ بھی سراپا احتجاج ہوگا۔
پھر سے ایسی غم گساری، پھر ترے وعدے وہی
پھر اضافی بوجھ کوئی ہم پہ ڈالا جائے گا