یوم توبہ واستغفار
وزارت مذہبی امورکے نوٹیفیکشن کے مطابق صدر محترم نے یہ جو "یوم توبہ واستغفار"کی ہدایت کی ہے، ہمارے دل کو بہت اچھی لگی۔ وہ تو علمائے کرام مشائخ عظام اورآئمہ عالی مقام نے منایا ہی ہوگا جیسے دوسرے "ایام " منائے جاتے ہیں۔ لیکن ہمیں تاحال یہ پتہ نہیں لگا کہ کس کس چیزیا کام سے توبہ کرنی ہے۔
اگر " یوم توبہ" کورونا وباء سے ہے تو عرض ہے کورونا سے تو لوگ پہلے ہی توبہ توبہ کررہے ہیں۔ اب توبہ پر توبہ، سمجھ لیجیے ہوگئی لیکن اصل سوال پھر وہی ہے اوراسی مقام پر کھڑا ہے کہ "توبہ" کس گناہ سے؟ کیوں کہ نوٹی فیکشن میں نشاندہی نہیں کی گئی ہے، کون کون، کس کس کام سے توبہ کریں؟
مثلاً شراب سے، جوئے سے، تماش بینی سے قتل وقتال سے، لوٹ مار سے، رشوت خوری سے، اقربا پروری بلکہ نالائق پروری سے، گراں فروشی سے، بہتان تراشی سے۔ رہی بات اپنی تو ہم پہلے سے توبہ شدہ ہیں کہ توبہ کرنے کے لیے گناہ بھی تو ہوناچاہیے، ہم تو توبہ کے بجائے مانگنے کے پوزیشن میں ہیں۔
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے
ایام اوریوم کے معنی ہی گزرجانے کے ہوتے ہیں اوراگر "ایام"مستقل ہوجائیں تو دوسرے یوم کی باری ہی نہیں آئے گی چنانچہ یہ جو محترمہ اقوام متحدہ کے ایام میں صرف ایک "یوم"تو نہیں ہوتا، اگر ایک ہی یوم مستقل بیٹھ جائے تو بچارے باقی کے "ایام" کیاکریں گے بلکہ بیچیں گے۔
شاعرنے کہاہے کہ…
کل ہی عارف نے بھری بزم میں توبہ کی تھی
آج پھر اس کے قدم سوئے خرابات رہے
اوریہ عارف جو کوئی بھی تھاٹھیک کررہاتھا۔"خرابات کابھی تو حق بنتاہے ایام پر۔
البتہ ایک کنفیوژن ضرورپیداہوگئی کہ کس کس نے کس کس کام سے یا چیزسے توبہ کی ہوگی یاانھیں کرنی چاہیے تھی، وزارت مذہبی امورکے نوٹی فیکشن میں تو علمائے کرام، مشائخ عظام اورآئمہ عالی مقام کو کہا گیاتھا کہ وہ یوم استغفارمنائیں۔ کس چیز سے یا کس کام سے توبہ۔ یہ واضح نہیں تھا۔
ہمیں اگر چہ مخاطب نہیں کیاگیاتھا لیکن پھر بھی ہم نے ان تمام غلط کاموں سے توبہ کرلی ہے۔ شراب پیناچھوڑ دیا کیونکہ کبھی شروع ہی نہیں کی۔ قتل وقتال سے بھی توبہ کرلی کیونکہ ہم روزانہ لفظوں کے ذریعے کشتوں کے پشتے لگایاکرتے تھے۔ جوا، سٹہ، گراں فروشی، لوٹ مار یہاں تک کہ رشوت لینابھی چھوڑدی کہ کل سے پھر شروع کریں لہٰذا آج کے لیے توبہ……
اب ہم نہ بازارگئے ہیں نہ شہرنہ کسی دفتر اورمحکمے میں دیکھ سکے ہیں کہ کس کس نے کس کس کام سے اس "دن" توبہ کرلی تھی لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہماری قوم بڑی تابعدارقوم ہے، سب نے اس دن توبہ کرلی ہوگی۔ آخر رمضان میں صرف ایک یوم تو نہیں، تیس میں سے کسی ایک یوم میں تو توبہ کر ہی لی ہوگی۔
ویسے بھی مچھلیاں تو جمع ہوچکی ہوں گی کیونکہ دنیا داری کے اس پانی سے باہر نکلنے کی کوئی راہ ہی نہیں لہٰذا رمضان المبارک کے بعد دگنی پکڑلیں گے، اورہاں خبردار! لوگ کہتے ہیں کہ توبہ کادروازہ ہمیشہ کھلارہتاہے، اگلے سال یکم رمضان کو پھر یوم توبہ استغفارمنالیں گے، ویسے یکم رمضان بینکوں میں سیونگ اکاؤنٹ پر زکوۃ کٹنے کادن بھی ہوتا ہے اوریقیناً حکومت نے بھی اس دن سود پر زکوۃ لینے سے توبہ کرکے زکوۃ نہیں کاٹی ہوگی، دوسرے دن کاٹی ہوگی کہ زکوۃ کاٹنا بھی تو ضروری ہے۔ یہ حکومت جو اتنے مساکین کو پالے ہوئے ہے، ان کوزکوۃ کہاں سے دے گی، انکم سپورٹ پروگرام بھی تو ہے، ہشاش بشاش کے پروگرام ہیں، لنگرخانے ہیں کارڈز ہیں اور بیت المال ہے۔
خیروہ توالگ مسئلہ ہے ریاست مدینہ کااور صادقوں امینوں کا۔ ہم صرف یوم توبہ استغفار کی بات کررہے ہیں کہ بہت اچھی روایت ہے۔
ازسردنیاگزشتی غم مخور
ہم نے آپ کو اپنے ایک دوست مولانا کاقصہ تو سنایاہوگا۔ ایک دن ہم ایک دعوت ولیمہ میں اکٹھے آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ درمیان میں بوٹیوں کاڈھیر تھا، کم بختوں نے یہ بڑی بڑی بوٹیاں تقریباً آدھی اینٹ کے برابرچاؤل میں ڈالی تھیں۔ مولانا کو کئی عوارض تھے۔ شوگر، بلڈپریشراوردل کے۔ وہ تھوڑی دیرخاموشی سے بوٹیوں کو دیکھتے رہے۔ پھربولے، بڑی پرہیزشکن بوٹیاں ہیں اورپھرحملہ آورہوگئے۔ ہم نے منع کرنے کی کوشش کی تو بولے، کوئی بات نہیں گھر جاگولیاں کھالوں گا اورکل سے پرہیزشروع کردوں گا۔
ہمیں یقین ہے کہ یوم توبہ واستغفار کے دن مومنین پاکستان نے پرہیزپریقیناً عمل کیاہوگااوراب اپنے کام میں دوبارہ جت گئے ہوں گے۔ وہ بھی ہوگیا اوریہ بھی چلتارہے گا۔ انشاء اللہ اگلے سال پھر یکم رمضان کو یوم توبہ واستغفارجوش وخروش اوردینی اورقومی جذبے سے منالیں گے کہ جناب شیخ کانقش قدم ہے یوں بھی رکھ سکتاہے اوریوں بھی۔
پشتو میں ایک سیدھاسادا سامحاورہ ہے۔ توبہ کر بدی سے اورجہاں موقع ملے حملہ کر بدی پر۔
بلکہ ہمیں تو اپنے جذبہ ایمانی سے بھرپوراورحب الوطنی سے معمورہم وطنوں پر پورا بھروسہ ہے کہ اگر روزہ نہ بھی رکھا ہوتو یوم توبہ استغفار بھی مناچکے ہیں، وہ ایک کہہ رہاتھا، ٹھیک ہے روزہ نہیں رکھ سکتا لیکن اتنا بھی تو کافرنہیں ہوں کہ سحری اورافطار بھی نہ کروں۔