اردو کے ماخذات (دوسرا اور آخری حصہ)
اپنے اصل موضوع لفظ اردو کی طرف آتے ہیں جس کی اصل "اریدو"ہے۔ اشوری خاندان بڑا جابر اور فاتح قسم کا خاندان تھااور اریدو شہر میں وہ اپنے قیدی یا غلام رکھتے تھے۔
خاص طور پر بنی اسرائیل کی دوسری حکومت جو دس قبائل نے الگ ہوکر بنائی تھی جسے "سامریہ"بھی کہتے تھے اور جس میں "دوقبائل"یہود وبنیامین نے مرکزی حکومت پر قبضہ کرلیاتھا اور اختلاف کی وجہ سے دس قبائل الگ ہوگئے تھے۔
یہ دس قبائل کی گمشدگی بھی تاریخ کا ایک بڑا افسانہ ہے جب کہ وہ جسمانی طور پر گم نہیں ہوئے تھے بلکہ مرکز سے الگ ہوکر الگ حکومت بناچکے تھے۔ اس الگ ہونے والے دس قبائل کی حکومت کو اشوری حکمرانوں نے بہت پہلے تباہ کر دیا تھا اور ٹھیک اسی طرح یہودیوں کو اسیر کرکے نینوہ لائے تھے جس طرح بعد میں کلدانی حکمران بخت نصر دوسری حکومت کو تباہ کرکے یہودیوں کوبابل لے آیاتھا چنانچہ پہلی حکومت سامریہ کو اشوری تباہ کر یہودیوں کے ان دس قبائل کو اسیر کرکے نینوہ لائے تھے اور ان کو "اریدو" نام کے اس کیمپ میں رکھتے تھے۔
بعد میں ان قیدیوں کو جنگوں میں بھی لے جایا جانے لگا اور پھر اس سے تنخواہ دار سپاہیوں یا فوجیوں کا سلسلہ شروع ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ"اریدو"کی نسبت سے لشکر اور فوج کانام ہی "اردو"ہوگیا جو اب بھی ترکی، ایران، افغانستان میں "فوج"کوکہاجاتاہے۔
اردو ئے معلیٰ شاہی فوج کے لیے استعمال ہوتاہے "قول اردو"فوجی مرکز کوکہتے ہیں، قواعد اردو فوجی تربیت کوکہاجاتاہے۔ لیکن جہاں تک "زبان"اردو کا تعلق ہے تویہ ہندوستان میں پیدا ہوئی کیونکہ ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جس میں بے شمار زبانیں بولنے والے رہتے ہیں چنانچہ مختلف زبانوں کے لوگ جب فوج میں اکٹھے ہوتے تھے تو ایک دوسرے کی زبان کے الفاظ بھی بولنے پرمجبور ہوتے تھے۔ یوں مختلف زبانوں کی ایک الگ زبان وجود میں آنے لگی جس کی بتدریج شکلیں مختلف زمانوں کے شعراء کے کلام میں دیکھتے ہیں، جیسے ولی دکنی، قطب شاہ امیر خسرو وغیرہ کے کلام میں ہم دیکھتے ہیں۔ ولی دکنی کا ایک شعر ہے۔
سایہ ہو مرا سبز برنگ پر طوطی
گرخواب میں وہ نوخط شیریں بجن آوے
بڑے کمال کاشعر ہے جس سے ولی دکنی کے فن کا اندازہ بھی لگ جاتاہے۔ یعنی اگر وہ"نوخط"اور "شیرین بجن" محبوب مجھے خواب میں بھی نظر آئے تومیرا سایہ بھی اس کے سبزہ خط کی وجہ سے سبز ہوجائے، طوطی کے پر کی طرح۔ طوطی جو شیریں کلامی کے لیے مشہور ہے اور اس کا رنگ انتہائی سبز ہوتاہے، سبزہ خط کی طرح۔ امیرخسرو نے تو اس ملی جلی زبان"ریختہ"میں بہت سارے کمالات دکھائے ہیں۔
زحال مسکیں مکن تغافل درائے نیناں بنائے بتیاں
سکھی پیاکوجو میں نہ دیکھوں توکیسے کاٹوں اندھیری ریتیاں
موجودہ اردو میں "بتیاں "(باتیں )ہوگئی ہیں اور "ریتیاں " (راتیں )اس طرح آوے، جاوے، کسوکوں وغیرہ بھی آئے جائے کسی اور کو ہوگئے ہیں۔ کافی عرصہ تک اس زبان کو ریختہ کہاجاتارہا یہاں تک کہ غالب نے بھی کہاہے۔
ریختہ کے تمہی استاد نہیں ہوغالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
میں نے ابتدا میں اردو زبان کو سمندر یا سنگم بھی کہا تھا جو زبانوں کا ہے لیکن یہ صرف سمندر یا بحر ہی نہیں جس میں قرب وجوار کے سارے دھارے ندی نالے اور دریا آکر گرتے ہوں بلکہ یہ زبان سمندر سے بھی کچھ آگے مجمع البحرین بھی ہے۔ مثلاً ہندآریائی گروہ کے ساتھ ساتھ یہ"سامی گروہ" سے بھی بہت کچھ لے چکی ہے اور منگولی زبانوں کا گروہ بھی آکر اس میں ملا ہوا ہے۔
اردو کی ساخت میں جیسا کہ سب جانتے ہیں مال مسالہ تو بے شمار زبانوں کا ہے اس لیے اگرکوئی زبان یا زبان والے اس پر دعویٰ کرتے ہیں تو غلط نہیں کرتے۔ لیکن اس کی تعمیر میں دو زبانیں بنیاد کے طور پرکام کرتی ہیں۔ غور سے پڑھیے تو افعال تمام کے تمام ہندی یا ہندیورپی ہیں جیسے کرنا، آنا جانا، اور لانا لے جانا سونا جاگنا اٹھنا دھونا لیٹنا پینا، جینا، لینا دینا رونا ہنسنا دھونا نچوڑنا۔ مطلب یہ کہ افعال جتنے بھی ہیں ہندی نژاد یا ہندیورپی ہیں۔
کبھی کبھی اگر کوئی سامی کام یا فعل آبھی جاتا ہے تواس کے ساتھ بھی"کرنا"یا "ہونا"لگایا جاتا ہے۔ جیسے حاصل کرنا، حل کرنا، بیدار کرنا استفادہ کرنا وغیرہ، البتہ اسماء صفات اور الفاظ دوسری زبانوں کے بھی آجاتے ہیں جن میں سب سے زیادہ حصہ فارسی کا ہے جو خود بھی ہندآریائی زبان ہے لیکن مذہب کی بنیاد پر یا فارسی کے ذریعے عربی کا بھی بہت زیادہ مال ومتاع اس نے حاصل کیاہوا ہے۔
اب یہ بات توطے ہوگئی کہ اردو بہت ساری چھوٹی بڑی زبانوں اور لسانی گروپوں کا ایک خوبصورت گل دستہ ہے لیکن یہ سوال ابھی تشنہ جواب ہے کہ اردو یا لشکر یا فوج تو ہرملک میں ہوتی ہے وہاں ایسی "اینگلوفرانکا" کیوں نہ بنی اور صرف ہندوستان میں کیوں یا ہندی لشکر میں اس کی تشکیل کیوں ہوئی؟ تواس کے لیے ہمیں اس تکونے خطے کا مطالعہ ومشاہدہ کرنا پڑے گا جو برصغیر یا جنوبی ایشیا کے نام سے معروف ہے اور اس کے باقی ایشیا کے درمیان اونچی پہاڑی سلسلہ حائل ہے جو برما سے شروع ہوکر اس خطے کو ایشیا سے الگ کرتاہوا ایران کے کوہ بابا پرختم ہوتاہے اور اس کی ایک شاخ خیبر پر سے جنوب کو مڑکر بلوچستان اور پھر سندھ میں کیرتھر تک پہنچتی ہے۔
خیر یہ ایک الگ موضوع ہے بات ہم ہند کی سرزمین کی کررہے ہیں جو ساری دنیا سے الگ یا تو سمندروں سے محصور ہے اور یا اس عظیم الشان ہلالی دیوار سے۔ خشکی کے راستے اس خطے میں گھسنے کے لیے صرف چند دروازے ہیں جن میں دو دروازے نسبتاً بڑے ہیں۔
ایک آریائی دروازہ جو خیبر کا درہ ہے اور دوسرا تورانی دروازہ۔ جو تبت کی طرف ہے۔ چنانچہ تاریخ کے ہر دور میں ان دروازوں سے مختلف جتھے یہاں پہنچ کرآباد ہوتے رہے ہیں، یہ سرزمین انسانی نسلوں، زبانوں اور مذاہب کا مرکز بن گیاہے۔ ترکیہ، منگولیا، ایران اور عرب ممالک یا مصر کی طرح یہاں ایک ہی زبان کے لوگ نہیں ہوتے تھے۔
اس لیے یہاں کے عساکر میں ایک رابطے کی زبان بنتی چلی گئی جسے پہلے ریختہ اور پھر اردو کہاجاتاتھا۔ قوموں اور نسلوں اور زبانوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی سرزمین کچھ اور معاملات اور چیزوں میں بھی رنگا رنگ اور گوناگوں ہے جن میں عقائد ونظریات اور مذاہب بھی شامل ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کی سرسبزی اور دولت مندی کی شہرت سن کر دنیا کے کونے کونے سے لوگ یہاں آتے رہے ہیں اور اس "سونے کی چڑیا"کو پکڑنے کی کوشش کرتے رہے اور ان میں اکثر جب ایک مرتبہ آئے توپھر واپس نہیں گئے اور اپنے ساتھ لائے ہوئے عقائد ونظریات، تہذیب وتمدن اور پھر خاص طور پر اپنا خون اور نسل اور زبان اس مجمع البحرین میں شامل کرتے رہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہاں مروجہ مذہب ہندودھرم ہے جس میں تقریباً ہر مذہب کا کچھ نہ کچھ شامل ہے اور نتیجے میں یہاں کا ہندودھرم صحیح معنی میں "مذہب"ہے ہی نہیں بلکہ بہت سارے مذاہب کے عناصر پرمبنی ایک بہت بڑا مرکب ہے۔
چنانچہ دنیا اور خاص طور پر ہند کے بڑے بڑے علما فلسفی اور لیڈر یہ مسئلہ ابھی تک نہیں حل کرسکے ہیں کہ ہندی دھرم ہے کیا؟ ایسی کوئی چیز نہیں جواس میں شامل نہیں، ہمہ اقسام کے توہماتی فلسفے، عقیدے رسومات اور روایات اس میں پائے جاتے ہیں نتیجہ یہ ہے کہ دوسرے مذاہب کی طرح نہ تو اس میں کوئی داخل ہوسکتا ہے اور نہ باہر نکل سکتاہے۔ چاہے "ہندی دھرم"کاکوئی کچھ بھی نہ مانے وہ بھی ہندو ہے اور چاہے سب کچھ مانے وہ بھی ہندو ہے۔ کسی بھی دیوی دیوتا کونہ ماننے والا بھی ہندو ہے اور 33کروڑ دیوی دیوتا مانے وہ بھی ہندو ہے۔ مطلب یہ کہ ہر ہرلحاظ سے ہند کی سرزمین رنگا رنگ ہے۔
اس لیے یہاں کی افواج بھی رنگارنگ ہوتی ہیں اور ان افواج میں جو زبان پیدا ہوئی وہ بھی بے پناہ رنگارنگ ہے، اس سرزمین کی طرح جوکچھ بھی آتاہے اسی کا ہوجاتاہے۔ چنانچہ اردو نہ توکسی مخصوص لسانی گروپ سے تعلق رکھتی ہے اور نہ ہی کوئی مخصوص زبان اس کا واحد مآخذ ہونے کا دعویٰ کرسکتی۔ پھر وہی بات دہراوں گا کہ اردو سب کی زبان ہے اورا س لیے سب کی زبان ہے کہ یہ کسی کی بھی زبان نہیں۔ اور نہ ہی اس پر حق ملکیت کا دعویٰ کرسکتاہے۔
اور یہ بات بھی دہرانا ضروری ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے سارے لسانی گروپوں کا اس کی تعمیر میں حصہ ہے۔ ہندیورپی سامی اور منگولی کا ذکر تومیں نے کیاہے لیکن ایک اور لسانی گروپ بھی اس کی تعمیر میں شامل ہے اور وہ گروپ "قبل آریائی"زبانوں کا گروپ ہے۔ اور جس میں ہند کی بہت ساری زبانیں، تامل، یا درواڑی، تیلکو اوڑی ملیالم وغیرہ شامل ہیں۔ یہ قدیم ترین زبانیں اب بھی ہند کے جنوب میں مروج ہیں اور ان سب کا اردو کی تشکیل میں حصہ ہے۔