سیم وتھور زدہ کھیت
سنا ہے کہ تبدیلی کے باغ میں ایک "نیاگل"کھلانے کی بات ہورہی ہے اورہونابھی چاہیے کہ یہ موقع بھی ہے موسم بھی ہے دستوربھی ہے یعنی تبدیلی کے موسم میں، تبدیلی کے عالم میں … میں گھرسے نکل آیا…تبدیلی اٹھا لایا۔
لیکن اگرکسی کاخیال ہے کہ تبدیلی سے کوئی تبدیلی آئے گی تو وہ اپنا خیال تبدیل کرے یااپنی کھوپڑی ہی تبدیل کردے کسی بے سینگے جانور کی کھوپڑی سے… بلکہ اگرخودہی کو "یہاں " سے تبدیل کرکے وہاں پہنچائے تو اورزیادہ اچھا ہوگا کیوں کہ جس "کھیت " میں تبدیلی کی بات ہو رہی ہے جی ہاں وہی کھیت جس سے دہقان کو روزی میسر نہیں لیکن خوشے اورشوشے بدستور نکل رہے ہیں، یہ کھیت جنم جنم انترسے " تھورزدہ اورسیم زدہ " ہے اس میں آپ کوئی بھی بیج ڈالیں، اُگے گی "گھاس"
کتنے آئے کیسے کیسے بیج لائے روایتی بیج، ترقی دادہ بیج، ہائبرڈ بیج… لیکن اُگا کیا؟
ہمارا تو کبھی کبھی ایسی باتیں سن کر من کرتاہے کہ پرانے زمانے کی شہزادی یاشہزادہ یاکوئی اوربن جائیں، پہلے خوب کھلکھلاکرہنسیں اورپھر بھوں بھوں روئیں کہ سترسال میں بھی اگر کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ کھیت سیم وتھورزدہ ہے اورمسلسل"بیج" ڈال کر ضایع کرتارہاہے اورپھر بھی نہ سمجھے کہ خرابی "بیج" میں نہیں کھیت میں ہے تو اس پررونے کے سوا اورکیاکیاجاسکتاہے۔
مری تعمیرمیں مضمرہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برق خرمن کاہے خون گرم دہقان کا
پارلیمانی، صدارتی، آمریتی، بنیادی، اسلامی، جمہوری وغیرہ نہ جانے کیاکیا"بیج" اس میں ڈالے نہیں گئے بوئے نہیں گئے لیکن نتیجہ وہی"سبزگھاس" اوراس کے" تین پات"۔۔
اگاہے گھر میں ہرسوسبزہ ویرانی تماشاہو
مداراب کھودنے پر گھاس کے ہے میرے درباں کا
بلکہ وہ مشہور حکایت بھی یہاں پیش کی جاسکتی ہے کہ ایک مرتبہ شیطان نے ایک شخص سے ایک کھیت میں ساجھے داری کی، اس نے شیطان سے پوچھا کہ تم فصل کاکونساحصہ لوگے؟ اوپر کا یا نیچے کا۔ شیطان نے کہا اوپر کا۔ تو اس سال کسان نے کھیت میں آلو بوئے۔ دوسری مرتبہ شیطان نے کہا، میں اگلی فصل کے نیچے کا حصہ لوں گا تب کسان نے گندم بوئی۔ تیسری مرتبہ شیطان نے ہوشیاری دکھاتے ہوئے کہا، میں نیچے کاحصہ بھی لوں گا اوراوپر کا بھی۔ اس مرتبہ کسان نے مکئی بوئی اوراوپر نیچے حصے شیطان کوپکڑاکر درمیان کاحصہ لیا۔
ہمارے اس کھیت میں بھی کوئی بھی فصل بوئیں حاصل صرف ان چند خاندانوں کو ملے گا جو ہمیشہ سے "تھے" ہمیشہ سے ہیں اورہمیشہ رہیں گے۔ وہ جوکہتے ہیں کہ آپ چارپائی کسی بھی طرف "سر"کرکے لیٹیں۔ درمیانہ عین درمیان میں ہی رہے گا۔
کونسانظام ہے جو یہاں لایا نہیں گیا، چلایا نہیں گیا اورپھر دفنایا نہیں گیا۔ سامنے دیکھئیے ان تمام نظاموں کی قبروں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں، وہ سب سے وہ بڑاسامزارہے جس کا کوئی نام تو نہیں لیکن اس پورے مقبرے یاگریویارڈ کی سب سے بڑی اورلمبی قبر ہے بلکہ یوں کہیے کہ سب سے پہلے یہی قبر بنی تھی اس کے بعد اس کے گرداگرد مزار ہی مزاربنتے چلے گئے اوربنتے چلے جارہے ہیں۔
بنیادی جمہوریت کا مزار، آمریت کی جمہوریت یاجمہوری آمریت کامزار، سوشلزم اورروٹی کپڑامکان کے مزار، سوشلزم، فاشزم کا مزار پھر اسلامی میڈ ان امریکا کا مزاراوراس کے بعد تو مزاروں کے پرے ہی پرے ہیں، لیکن ہرنظام صرف نظام سقہ ہی ثابت ہوا، یانظام کا تو انہضام اورصرف سقے ہی سقے۔ وہ سقے جن کے پہلو میں کالانعاموں کی کھالوں کی بنی ہوئی اورکالانعاموں ہی کے خون سے بھری ہوئی "مشکیں "ہوتی تھیں اورقطار میں بیٹھے ہوئے گھڑے، کوزے اورطرح طرح کے برتن ہوتے تھے، یہاں تک کہ سکہ چمڑے کاہوگیا، پھر چمڑا بھی برآمد ہونے لگا تو پلاسٹک اورکاغذ کے سکے ہوگئے، لیکن سقے پھر بھی ان سکوں کے داروغہ رہے۔
سوبار چمن مہکا سوبار بہار آئی
دل کی وہی ویرانی دل کی وہی تنہائی
نظاموں میں کوئی خرابی نہیں، ہرہرنظام دنیا میں کہیں کہیں چل رہاہے اوراچھی طرح چل رہا ہے۔ ایسے ملک بھی بے شمار ہیں جہاں ابھی تک بادشاہت ہے لیکن پھربھی عوام کی زندگی کسی جنت سے کم نہیں، آمریت بھی کئی ممالک میں ہے لیکن پھر بھی عوام کو وہ چارحقوق حاصل ہیں جو عوام کاحق اورحکومت کافرض ہوتے ہیں "تحفظ، تعلیم، صحت اورروزگار" جن کایہاں نظاموں کے اس قبرستان میں نام ونشان تک نہیں ہے۔
پارلیمانی نظام بھی بہت سارے ملکوں میں رائج ہے اور وہاں پارلیمان بھی ہے اورنظام بھی اور حکومت بھی جب کہ نظاموں کے اس مقبرے یاسیم وتھورزدہ کھیت میں وہ حیران کن حد تک، تمام نظاموں کا ملغوبہ بن گیاہے جن میں بادشاہت کے رنگ بھی ہیں، آمریت کے بھی، خلافت کے بھی اورپاپائیت کے بھی، مقدس گائیں بھی ہیں، مقدس وژن بھی، مقدس ریاست بھی ہے اوراگر نہیں ہے تو صرف حکومت یانظام نہیں۔
اس لیے مان لینا چاہیے کہ خرابی بیج میں نہیں بلکہ اس کھیت میں اوراس کی مٹی میں ہے، سیم وتھور میں ہے اورجب تک "سیم وتھور" ہٹایا نہیں جاتا تب تک اس سے کسی فصل کی امید نہیں کی جاسکتی چاہے آسمان سے جنت کابیج لاکر کیوں نہ بویاجائے، بلکہ اگر کوئی ہماری مانے تو کچھ عرصے کے لیے کسی بھی نظام کے بغیر اسے بے مہار چھوڑدیاجائے تو شاید کسی بہتری کی صورت نکل آئے، درد کا حد سے گزرناہے دواہوجانا۔