سب کچھ ہے…
یہ تو معلوم نہیں امیر مینائی نے یہ کس سے کہاتھا۔
زندگی میں وقت مجھ پر دوہی گزرے ہیں کٹھن
اک تیرے آنے سے پہلے ایک تیرے جانے کے بعد
ہمیں معلوم ہے کہ کس کے آنے اور کس کے جانے کے درمیان ہم پر تھوڑا سا وقت اچھا گزرتا ہے۔ خدا خدا کرکے ایک کے آنے کا انتظار کرتے ہیں، آہیں بھرتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، دھرنے شرنے دیتے ہیں، اچھل اچھل کر زندہ باد مردہ باد کہتے ہیں اور جب وہ آجاتا ہے تب تک پتہ چلتا ہے کہ جسے سمجھتے تھے انناس وہ عورت نکلی۔ وہ جو نیلم پری کے لباس میں …تھا، وہ نیلم پری نہیں بلکہ دیو استبداد تھا۔
پری تہضہ رخ و دیوار کرشمہ حسن
سوز تھل ز حسرت کہ اپنی بوالعجی ست
جب دیو استبداد اپنے نیچے دانت نکال کر ہمیں توڑنے پھوڑنے، نچوڑنے اور بنبھوڑنے لگتا ہے تو ہم کسی اور دوسرے کی راہ تکنے لگتے ہیں، یوں پھر وہ دوسرا آجاتا ہے۔ تو پتہ چلتا ہے کہ نماز بخشوانے گئے تھے، روزے بھی گلے پڑ گئے۔ چور سے بھاگے تھے، ڈاکو کے ہاتھ چڑھ گئے۔ کفن چورنے اپنے بیٹے کے حوالے کردیا۔
ایک شخص نے دوسرے سے کہا کہ اگر تم بیس بار یہ کام کرو مثلاً اگر تم بیس چھینکیں مارو تو میں تجھے سو روپے دے دوں گا۔ اس نے کوشش شروع کردی اور شرط لگانے والے کی توقع کے خلاف بیس کی تعداد پوری کرلی۔ شرط لگانے والا تو سو روپے دینا ہی چاہتا تھا۔ اس لیے فاؤل کا الزام لگاتے ہوئے بولا، جھوٹ بولتے ہو تم۔ تم نے بیس چھینکیں کہاں ماری ہیں، ایک ہی چھینک تھی جو تم بس اندر باہر کرتے رہے۔
ہم بھی ستر سال سے اس گمان میں ہیں کہ ہم الگ الگ چھینکیں ماررہے ہیں جب کہ وہ ایک ہی چھینک ہے جو بدل بدل کر آتی اور جاتی ہے۔ یعنی سیٹرھیاں، ہیں جو اُوپر بھی جاتی ہیں اور نیچے بھی آتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ پرانے نوابی دور میں ماہر باورچی ہوتے تھے جو درجنوں پکوان الگ الگ رنگوں کے بنا دیتے تھے لیکن چکھنے پر دال یا شکر یا چاول کے لگتے تھے۔
ہم بھی قسمت کی خوبی یا خرابی سے کسی ایسے "ماہر باورچی" کے ہاتھ چڑھ گئے ہیں کہ "تبدیلی" کی کوشش میں جس بھی پکوان کو ہاتھ لگاتے ہیں، وہی نکلتا ہے۔ وہ بچھو کا قصہ ہے۔ ایک بچھو سے کسی نے پوچھا کہ تم میں سے سردار کون ہے؟ بچھو نے جواب دیا، جس کے سر پر ہاتھ رکھو، وہی سردار نکلے گا" صرف درمیان میں تھوڑا سا عبوری وقفہ ہمار اپنا ہوتا ہے۔ باقی زندگی امیر مینائی کے برعکس، صرف وہی ایک وقت ہم پر اچھا گزرتا ہے جو ایک جانے اور دوسرے کے جانے کے درمیان ہوتا ہے۔
عمردراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
یا پھر ہم وہ گھرانا ہیں جسے تین سوال "تبدیلی" کے ملے تھے اور اس نے تینوں ضایع کردیے تھے۔ کہتے ہیں ایک گھرانا تین افراد پر مشتمل تھا۔ ماں باپ اور ایک بیٹی۔ انتہائی غربت زدہ یا پاکستانی جمہوریت زدہ تھا۔ دن رات دعائیں کرتے تھے یا اﷲ ہماری حالت بدل دے۔ ایک دن دعائیں مقبول ہوگئیں۔"تبدیلی" آگئی اور اس نے پوچھا، مانگ کیا مانگتا۔ لیکن یہ خیال رہے کہ تم تینوں صرف ایک ہی تبدیلی مانگو گے۔ بیٹی اتاولی ہوکر بول پڑی۔ میں چاہتی ہوں کہ دنیا کی خوبصورت ترین لڑکی بن جاؤں۔ تبدیلی نے کہا "تتاسو"…وہ دنیا کی حسن ترین لڑکی میں تبدیل ہوگئی۔ تبدیلی نے کہا، اب میں ایک سال بعد آؤں گی۔
ایک شہزادہ ادھر سے گزررہا تھا۔ اس نے اتنی بے پناہ خوبصورت لڑکی کو دیکھا تو اپنے پیچھے گھوڑے پر بیٹھا کر اسے جھونپڑی سے محل میں تبدیل کردیا۔ لڑکی اس تبدیلی سے اتنی خوش اور مغرور ہوگئی کہ جب ماں باپ نے آکر اس سے ملنے کی کوشش کی تو اس نے پہچاننے سے انکار کردیا۔ کیونکہ شاہی محل، شاہی تخت اور شاہی کرسی پر بیٹھنے والوں کا سب کچھ تبدیل ہوجاتا ہے۔ جان پہچان، آنکھیں، کان، رشتے ناتے یہاں تک کہ خون بھی سفید ہوجاتا ہے۔
لڑکی نے ماں باپ کو بے آبرو کرکے دھتکار دیا تو سال گزر چکا تھا، تبدیلی پھر حاضر ہوئی۔ والدین نے خواہش کی کہ ان کی یہ ناہنجار، نابکار اورمردار لڑکی بدصورت بلامیں تبدیل ہوجائے۔ ادھر تبدیلی نے "تتاسو"کہا اور ادھر لڑکی خوبصورت ملکہ سے تبدیل ہو کرچڑیل بن گئی اور محل سے نکال دی گئی۔
وہ روتی ہوئی اور کہاں جاتی چنانچہ ماں باپ کے پاس واپس پہنچ گئی۔ ماں نے اسے یوں روتے دیکھا تو اکلوتی بیٹی اور جگر کے ٹکڑے پر رحم آیا۔ چنانچہ اس نے اپنی باری پر تبدیلی سے خواہش کی کہ میری بیٹی پہلے جیسی ہو جائے اور وہ ہوگئی اورگھرانا تبدیلی کے باوجود پہلی والی حالت میں ہی رہا۔ نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ صرف دل ٹوٹے اور ٹوٹے دلوں کی قیمت گلاس سے بھی کم ہوتی ہے۔ اس لیے زور سے کہیے تبدیلی زندہ باد"گھرانا" مردہ باد۔
لیکن تبدیلی کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے کیونکہ تبدیلی کی کہانی کبھی ختم نہیں ہوتی بلکہ ہر کہانی کے اختتام کے بعد نئی شروع ہوجاتی ہے۔ اس کہانی کا پارٹ ٹو بھی ہے جس گھرانے کا تبدیلی نے کچھ بھی نہیں بگاڑا تھا، وہ عوام کا گھرانا تھا۔ جب کہ ایک اور گھرانا بھی تھا جس میں ایک ہوشیار نوجوان کو تین مسائل درپیش تھے یا تین تبدیلوں کا طلب گار تھا۔ ایک مسئلہ بے انتہا غربت کا تھا۔ دوسرا ماں کی بیماری کا تھا اور تیسر اس کی اپنی شادی کا تھا۔ اس کی دعاؤں، نعروں اور دھرنوں کے جواب میں بھی "تبدیلی" حاضر ہوگئی اور صرف ایک سوال کے قبول ہونے کا مژدہ سنایا لیکن وہ عوام نہیں تھا، سیانا اور شاطر تھا۔ اس لیے اس نے ایک "تھری ان ون" خواہش کر دی۔
میں چاہتا ہوں کہ میری ماں اپنے پوتے کو سونے کے چمچے سے کھلائے۔ تبدیلی نے کہا "تتاسو"۔
اب مسئلہ بیچ میں یہ آن پڑا ہے کہ ایک ہی تبدیلی ہے لیکن ایک گھرانے کے لیے کچھ اور دوسرے گھرانے کے لیے کچھ اور۔ چمتکار یہ ہے کہ سوال بھی ایک، تبدیلی بھی ایک اور ووٹ بھی ایک لیکن… لیکن… اس لیکن کے بعد آپ سوچتے رہیے ہم تو چلے تبدیلی کی تلاش میں۔
سب کچھ ہے، کچھ بن ہے، یہ حالت بھی خوب ہے
تبدیلیوں کا نام سیاست بھی خوب ہے
اپنا بنالیا کبھی بیگانا کردیا
یہ دھوپ چھاؤں حسب ضرورت بھی خوب ہے۔