قرض سے نجات کانسخہ اورتوبہ
کون کہتاہے کہ ہمارے ہاں اہل حکمت اہل برکت اوراہل قالت مقالت نہیں ہیں۔ ایک سے ایک بڑھ کرصاحب حال وقال ومال پڑاہواہے جو ایسے امراض کاعلاج بھی چٹکیوں میں کردیتے ہیں جن سے لقمان حکیم بھی ہاتھ اٹھا کر چلے گئے ہیں۔
ہم ان حکیموں اورمعالجوں کی بات نہیں کررہے ہیں جوپروفیسرعامل کامل وغیرہ کی اعلیٰ ترین ڈگریاں رکھتے ہیں اوراپنی فہرست میں ایسی ایسی بیماریوں کاعلاج طب نبوی سے نکالنے کے مدعی ہوتے ہیں جنھیں سختی سے منع کیاہواہے۔ بلکہ ہم ان چھوٹے درجے کے معالجوں کی تحسین کرتے ہیں جو اخباروں رسالوں میں چند عربی الفاظ سے معالجات کرتے ہیں، اب کے ہم نے اس دن اخبار میں ایک ایسے مرض کاعلاج ایک وظیفے سے پڑھاجس سے دنیابھرکے معالج انکاری ہیں، وہ مرض "قرض" کاہے جو پاکستان میں تو ام الامراض کادرجہ حاصل کرچکاہے لیکن ہم ان امراض کانام نہیں لیں گے جو اس ام الامراض کے ابوالاامراض ہیں۔
صرف یہ خبر پڑھ لیجیے کہ حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط مان لی ہیں اورآئی ایم ایف نے پچاس کروڑڈالرکا قرضہ مرحمت فرمادیا، ان شرائط کا بھی ہم ذکر نہیں کریں گے کہ وہ شرائط ہیں، ہماری حکومت کے روزمرہ کے کام ہیں۔ بھلانرخ بڑھانایاٹیکس لگانا اوربڑھانا یابڑھ بڑھ کے لگانا بھی کوئی شرط ہے، وہ تو اب بجٹانہ سالانہ اورماہانہ سے ترقی کرکے روزانہ کاکام ہوچکاہے، شاید بہت جلد ساعتانہ یاگھنٹانہ بھی ہوجائے۔ لیکن اس معالج نے قرض سے نجات کاوظیفہ بتاکر ہماری ساری خواری رفع کردی ہے۔
اب ہم جتنا چاہتے جہاں سے چاہیں جب چاہیں جس سے چاہیں اورجن شرائط سے بھی چاہیں قرض لے سکتے ہیں، یہ وظیفہ ہے ناہمارے پاس۔ اورخطرہ ٹلائی کاذکر بھی کیا تھا کہ ہرخطرے کا علاج صرف یہ وظیفہ ہے، یہ پہلے سے بھی زیادہ تیربہدف اوررام بان ہے۔ قرضہ لیجیے، کھائیے پیئے اوراوپر سے چٹکی بھر یہ وظیفہ چورن کی طرح ڈالیے، قرض ہضم سود ہضم بلکہ ہمیں تو ایک اورخوشی بھی حاصل ہوئی، علامہ بریانی عرف برڈفلو ماہرتعویذات وعملیات وغذائیات نے اپنے جس خاندانی چورن کوڈویلپ کرکے لکڑ ہضم پتھر ہضم، پھر سمینٹ ہضم سریاہضم، بجٹ ہضم فنڈہضم سے گزار کر "سب کچھ ہضم" بنایاہوا اورجس کے خاص الخاص خریدار وزیر، لیڈر اورافسر ہیں۔
یہ نسخہ ہمارا تونہیں، ان صاحب کاہے جس نے اخبار میں اس کاانکشاف کیاہے لیکن پھر اس کی پبلسٹی میں ہماراحصہ تو ہے۔ علامہ کے نسخے سے بدرجہا زیادہ رینج کاہے کیوں کہ مرض کے اوپر ایک نقطہ ہوتا ہے اور"قرض" دولفظوں کے ساتھ اس سے آگے ہے۔ صرف اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی شرط ہے جو ان صاحب نے تو بیان نہیں کی ہے لیکن ہم نے وظیفے کے عربی الفاظ سے اخذکیاہے، اس وظیفے میں نقطہ توب کا ہے بلکہ توبہ کا لفظ استعمال کیا گیا کیوں کہ "توبہ" کے لفظ میں واقعی توبہ بھی شامل ہے لیکن پہلے والے گناہ تب معاف ہوں گے جب آیندہ کے لیے اس سے پکی اورمکمل توبہ کی جائے، لیکن یہ تو بڑی مشکل آپڑی ہے۔
"توبہ"ہی تو ہم نہیں کرسکتے، اگر کرسکتے تو گناہ کرتے ہی کیوں۔ اس توبہ کے معاملے میں ہمارے ہاں اس شخص کاکلیہ رائج ہے جس نے کہاتھا کہ کون کہتاہے کہ سگریٹ نہیں چھوڑی جاسکتی، میں نے خود کم ازکم بیس بار چھوڑی ہے اورابھی میں نے اس کام سے ریٹائرہونے کااعلان نہیں کیاہے۔
ایسے موقع پر ہمیں "اناردانہ بیگم"بھی یاد آجاتی ہے جو ایک نودولتیے کی بدصورت لیکن الٹرماڈرن دختر نیک اخترتھی۔ اس نے اپنے ماڈرن حلقے میں باقی خواتین سے اتفاق کرتے ہوئے کہا تھا کہ واقعی یہ مرد لوگ بے وفا ہوتے ہیں اور میں کوئی سنی سنائی بات نہیں کہہ رہی ہوں، میں نے خود تجربہ کرکے دیکھاہے لیکن اس اعلان کے بعد بھی وہ تجربات کرنے میں لگی ہوئی ہے۔
اب اگر قرض سے نجات کے لیے یہ نسخہ تجویزکریں تو اس "اتوب" یعنی توبہ کاکیاکرینگے جو ہمارے ہاں بہت ناپائیدار ہے، شاید یہ آب وہوا ہی اسے راس نہیں ہے کہ ابھی پوری طرح سوکھی بھی نہیں ہوتی کہ ٹوٹ جاتی ہے۔
کل ہی عارف نے بھری بزم میں توبہ کی تھی
آج پھر اس کے قد م سوئے خرابات رہے
یا قرضہ جات رہے بلکہ بعض لوگ تو آج کاکام کل پر چھوڑتے ہی نہیں اورحکومت کی طرح کل کاکام بھی آج ہی کرنے کے قائل ہوتے ہیں جو کل کرے سو آج جو آج کرے سو اب۔ اوراس ضروری کام کے لیے حکومت نے باقاعدہ نیپرا، ٹیپرا، زپیپرا اور دیگر کئی اتھارٹیاں زرکثیرصرف کرکے بنائی ہیں کہ نرخ بڑھانے کاکام موخرنہ ہوجائے۔ خیرہم نے اصل صورت حال سامنے رکھ دی ہے۔
ادائے خاص سے غالب ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے
قرض سے نجات کانسخہ حاضرہے۔ ہرخاص وعام اس سے فائدہ اٹھا کر قرض سے نجات پاسکتاہے۔ صرف اس "توبہ" کاکچھ کرنا ہے اوراس چھوٹی سی بات کاکچھ کرنا بھی مشکل نہیں کہ پاکستان کی حکومت اورعوام دونوں کو ایسی چھوٹی باتوں کاعلاج اچھی طرح آتا ہے بلکہ سترسالہ تجربہ رکھتے ہیں۔
مشکلے دارم زدانشمند مجلس بازپرس
توبہ فرمائیاں چہ را خود توبہ کمترمی کنند
یعنی مجھے شبہ ہے اس لیے دانش مند سے دوبارہ پوچھئے کہ توبہ کی تلقین کرنے والے خود کیوں توبہ نہیں کرتے۔