پرہیزعلاج سے بہتر ہے
وہی ہوا جو ہوتا رہتاہے، اس طرح کے کاموں میں مقاموں میں اور ہنگاموں میں۔ یعنی بندہ پریشان اللہ مہربان۔ ہمیں بھی اپنے مرض کا علاج مل گیا۔ لیکن کہاں؟ جہاں وشواس نہیں ملا لیکن جہاں وشواس نہیں تھا وہاں مل گیا، گویا نہ جہاں میں کہیں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی؟ ایک بہت ہی "عام" آدمی نے بہت ہی عام اور خام طریقے پرہمارا علاج کردیا بلکہ بتادیا جو اس بات کی بھی تصدیق کرتا ہے کہ "پرہیز"علاج سے زیادہ بہتر ہے اور اس سے ہمیں اپنے مرض سے نجات مل گئی۔
مرض کا کیا نام لیں، اس کا نام لے کر ہمارا منہ اور سن سن کر آپ کے کان پک گئے ہیں۔ اس لیے نام نہ لینا بہتر ہے، بس ایک مرض ہی سمجھ لیجیے۔ جو ڈاکٹروں، دواسازوں اور حکومت کے صحت بازوں کے لیے دودھیل گائے اور ہمارے لیے "ہائے"تھی۔ وہ شخص بھی ہمیں بڑی مدتوں کے بعد آئینے میں ملا تھا۔ پہلے تو ہم ایک دوسرے کو پہچان نہیں پائے کہ دونوں میں پاکستان کی مشہور ومعروف "تبدیلی"کی طرح بہت بڑی تبدیلی آئی تھی، لیکن پھر بھی…
بہررنگ کہ خواہی "چہرہ"می پوش
من انداز قدت رامی شناسم
(تم چاہے کوئی بھی لباس یا چہرہ پہن لو، میں تمہیں تمہارے قدوقامت سے پہچان لیتا ہوں۔ جان پہچان کے بعد آپس میں دوچار گالیوں کا تبادلہ کیا کہ تعلق کا سلسلہ وہیں سے جڑے جہاں ٹوٹا تھا)
یاربچپن کا اک پرانا ملا
ہم کو گزرا ہوا زمانہ ملا
اسے جب ہمارے مرض کا پتہ چلا تو پہلے تو ٹھٹھے لگاکر ہنسا کہ تم نالائق ہو، ویسے ہی تم نے اپنے مرض بھی نالائق چنا ہے، پھر بھوں بھوں روتے ہوئے بولا، تمہیں اتنی تکلیف تھی اور مجھے بتایا تک نہیں۔ ورنہ اتنا کشٹ نہ اٹھانا پڑتا۔ ہم نے کہا، علاج بتاؤ۔ بولا، علاج نہیں پرہیز بتارہاہوں جو تمہیں چند چیزوں سے کرنا ہوگا۔
مجھے پتہ ہے کہ ہم تم ہمدم دیرینہ ہیں اور تمہیں کن کن چیزوں سے الرجی ہے۔ عرض کیا ہمیں تو بہت ساری چیزوں سے الرجی ہے، جیسے وزیروں سے، منتخب عوامی نمایندہ، جمہوریت کے بچہ جمہوروں سے، معاونین خصوصی برائے سے۔ اور ان دینداروں سے کہ دین بذریعہ کرسی کے قائل ہیں، ان دانا دانشوروں سے جنھوں نے دانش اپنی حماقت سے سیکھی ہے۔
وہ ہاتھ اٹھا کر بولا، یہ تو بڑا طویل پرہیزی پروسیجر ہے، اس پر عمل کرو گے تو ڈروگے، مروگے اور ان"الرجیوں "کا تو کوئی شمار نہیں ہے نہ قطار بلکہ انبار کے انبار ہیں، کس کس سے کہاں کہاں اور کیسے کیسے چھپو گے؟ تو کیاکروں؟ زچ ہوکر ہم نے ایک بڑی سی گالی میں لپیٹ کر کہا۔ اس نے سنا وہ چپ رہا۔ پھر ہنس دیا۔
بولا، میں اس کا آسان نسخہ بتاتا ہوں، صرف دو آنکھیں اور دوکان بند کرو، اپنی زندگی گل قند کرو، قلا قند کرو، شکرخند کرو اور خود کو بخارا وسمرقند کرو۔ بلکہ ایک تیسری چیز "منہ"بھی بند کردو۔ مت دیکھو مت سنو اور مت کہو؟ یہی علاج ہے۔ اس کی یہ اسٹوپڈ بات سن کر ہم نے کہا لیکن دانشور تو اس پر "برُا"کا اضافہ بھی کرتے ہیں، برا مت دیکھو، برا مت سنو اور برا مت کہو۔ کس نے کہا ہے، یہ سب انسانوں کا اڑایا ہوا جھوٹ ہے۔ میں نے صرف یہ کہا ہے کہ مت کہو، مت سنو اور مت دیکھو۔ یہ برا یا بھلا بیچ میں کہاں سے آگیا۔
یہ توسراسر الزام تراشی ہے۔ ہم نے اسے بریک فری ہوتے دیکھ کر جلدی سے کہا، پٹری مت بدلو پاکستانی لیڈروں کی طرح پارٹی اور نظریہ بدلنے کی طرح وہ علاج کی بات بتاؤ۔ علاج کی نہیں پرہیز کی۔ اگر اس بیماری سے روز روز کی خواری سے اور منت وزاری سے نجات پانا چاہتے ہو تو علاج چھوڑ پرہیز اپنا۔ یہ تم نے کون سی نئی بات کہی ہے، یہ تو مجھے بھی معلوم ہے کہ "الرجیوں "سے دور رہوں خوش ومسرور رہوں اور سکون سے معمور و بھرپور رہوں لیکن "الرجیاں "اتنی بڑھ گئی ہیں کہ کہیں بھی امان نہیں، اطمینان نہیں اور فرارکا امکان نہیں۔ بولے، ایک طریقہ ہے۔
بکو۔ ہم نے بیزاری سے کہا۔ وہ بولا، بک نہیں رہا ہوں بلکہ فرما رہا ہوں، بتا رہاہوں اور سنا رہاہوں کیونکہ اس وقت میں انتہائی سنجیدہ ہوں، تمہارے رنج سے رنجیدہ ہوں۔ ایسا کرو کہ تم بھی سنجیدہ ہوجاؤ اور وہ اپنے اجداد۔ میرا مطلب ہمارے اجداد کی طرح ہوجاؤ۔ لیکن سنا ہے کہ وہ اجداد بھی بہت کجھاتے تھے اور ہر وقت کھجاتے تھے۔ یہ صحیح ہے لیکن وہ محبت والے لوگ تھے۔ ایک دوسرے کو کھجاتے تھے۔ بلکہ کھجلی کی جڑ یعنی جوئیں نکالتے تھے۔ لیکن جوئیں تو میں بھی نکالتاہوں۔ لیکن اب تم اجداد کی طرح نہیں رہے۔
انسان بن گئے ہو اور اپنی کھجلی مٹانے کے لیے دوسروں کی جوئیں نکالتے ہو، جوئیں بے شک نکالو لیکن اپنے جسم کی دوسروں کی مت نکالو۔ کیسے؟ بہت آسان ہے۔ سننا دیکھنا اور بولنا بند کردو۔ اورا س کا آسان طریقہ یہ ہے اخبار دیکھو ضرور لیکن آنکھیں بند کرکے، ریڈیو سنو لیکن کان بند کرکے، بولو لیکن ہونٹ بند کرکے۔ اس کی یہ بات ہمیں پسند آئی اور اس پر عمل پیرا ہیں۔ بولتے ہیں لیکن زیرلب بولتے۔ اوراس انداز میں بولتے ہیں کہ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ البتہ کچھ لوگ"لب ریڈنگ" جانتے ہیں، وہ"سن"لیتے ہیں اگرچہ بہریہی ہوں۔ اسی وجہ سے اکثرلوگ ہم سے شاکی ہیں کہ ہم چیونگم چباتے ہیں اور کچھ بولتے نہیں حالانکہ ہم بولتے ہیں، چیونگم نہیں چبارہے ہیں، اس لیے بعض لوگوں کو وہی بات ناگوار گزرتی ہے جو ہمارے افسانے میں ہوتی ہی نہیں۔