مرغی اورمواقع میں قدر مشترک
کوئی کچھ بھی کہے، سمجھے لیکن ہم تو اپنے صوبے خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ کے طرف دار بھی ہیں، سخن فہم بھی، تابعداربھی اورستائش گربھی، کہ ہر روز کوئی نہ کوئی مژدہ جاں فزا، روح افزااوردل افزا سناتے رہتے ہیں بلکہ جب بھی بولتے ہیں اچھا بولتے ہیں اوراچھے کے سواکچھ بھی نہیں بولتے، اب تک وہ صوبے کوماڈل صوبہ بھی بناچکے ہیں، دہلی پر پرچم بھی لہراچکے ہیں، بچے بچے کو روزگار بھی دے چکے ہیں، ہرہر گھر کا کچن بھی بھرچکے ہیں، ہردہلیزپر انصاف بھی پہنچا چکے ہیں، بے گھروں کوگھر بھی عطا کرچکے ہیں۔
جنگلی حیات، شہری حیات، گونگی حیات، بہری حیات، ہوائی حیات یعنی ہرحیات کوتحفظ بھی دے چکے ہیں، بے شمارمیگا، اومیگا، مگہ، میگے پراجیکٹ بھی مکمل کرچکے ہیں، مطلب یہ کہ راوی ہرطرف چین ہی چین لکھ رہاہے اوراب، رواں مالی سال اکنامک زون قائم کیے جائیں گے، تین لاکھ لوگوں کو روزگار کے "مواقع" ملیں گے، باقی سب کچھ چھوڑ کر لفظ "مواقع" پر فوکس کرلیجیے، کیا لفظ ہے ایسے لگتا ہے جیسے کانوں میں شہد ٹپکایا گیا ہو، ہونٹوں پرگلاب کھل گئے ہوں، زبان پر بتاشہ گھل گیا ہو اورحلق میں دنیا کے سارے "ذائقے"آکر گھل مل گئے ہوں۔"مواقع" ذراغورئیے، حوضیے، "دہرائیے گنگنائیے"… "مواقع " اگر کوئی ہم سے انصاف کرائے تو ہم سارے الفاظ کو اس ایک لفظ "مواقع" کی غلامی میں دے دیں۔
ایک لفظ"مواقع" کا یہ سارا فسانہ ہے
سمٹے تو سیاست ہے پھیلے تو زمانہ ہے
اگر کوئی ہم سے پوچھے۔ کوئی کیاحکومت یا وزیراعلیٰ یہاں تک کہ (اگر وژن اورآئی ایم ایف بھی پوچھے کہ مانگ کیامانگتا ہے؟
تو ہم کہیں "مواقع"اورمواقع کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں کہیں گے کہ۔
سب کچھ خداسے مانگ لیاتجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعاکے بعد
ویسے وزیراعلیٰ کے اس بیان سے ہمارے دل میں سوال تو بہت سارے اٹھ رہے ہیں لیکن ان تمام سوالوں کی قیادت صرف یہ ایک سوال کر رہاہے، کیا ملک میں اب بھی کوئی بیروزگار بچا ہے؟ اتنی بہت ساری روزگار اسکیموں، میگاپراجیکٹس، نوکریوں کی ٹوکریاں، اس پر بے نظیرپروگرام، امداد پروگرام، ایک لاکھ ایک ہزار ایک سو ایک، کارڈوں، حساس پروگرام، ہشاش بشاش اور انصاف پروگرام وژن پروگرام چل رہے ہیں اگر اب بھی کوئی "بے روزگار "بچاہے تو اسے "گولی" ماری جائے کیوں کہ وہ دنیا کا نااہل ترین شخص ہے یا اسے خود ہی خود کو پھانسی دے دینی چاہیے۔
من ازیں طالع شوریدہ برنجم ورنہ
بہرہ مندازسرکویت دگرے نیست کہ نسیت
ترجمہ۔ میں اپنی اس بدبخت قسمت سے شاکی ہوں ورنہ کون ہے جس نے اس "کوچے" سے خود کو بہرہ مند نہیں کیا۔
بلکہ حافظ نے مطلع میں اس سے بھی زیادہ سخن گسترانہ بات کہی۔
غیرازیں نکتہ کہ حافظ زتو ناخوشنود است
درسراپائے وجودت ہنرے نیست کہ نیست
یعنی سوائے اس کے کہ حافظ تم سے شاکی ہے باقی کونسا ہنر ہے جو تمہارے سراپامیں موجود نہیں۔
دراصل یہ سوال ہم نے اس لیے اٹھایاکہ پچیس کروڑ خوش قسمتوں میں شاید ہم اکیلے ہیں جو "مواقع" سے محروم ہیں۔ سالہاسال گزرگئے، پلوں کے نیچے کتنا پانی اوراوپرکتنی گاڑیاں گزریں، کتنی حکومتیں آئیں، گئیں "مواقع" الغاروں تلغاروں پیدا ہوئیں اوربٹ گئیں لیکن ہم باوجود کوششوں کے بلکہ مناسب حد تک "پیش کشوں " کے باوجود اپنے کسی بیٹے کو روزگار نہیں دلاپائے، آخری کوجتن کرکے ایک جگہ لگوایاتھا، تین سال تک "کچی پکی"کی امید میں گزارکر اوورایج ہوا، پھر خیر سے بدھوگھر کوآئے، خالی ہاتھ، خالی جیب اورخالی پیٹ۔
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
ہم حیران ہیں، پریشان ہیں، خامہ سربگریبان ہیں کہ ایسا کوئی درنہیں جہاں ہم نے صدا نہیں لگائی مگروہ "مواقع" نہ جانے کس جہاں میں کھوجاتے ہیں جو اخباروں میں جھانک کر اپنی چمک دکھا کر کھو جاتے ہیں۔
اب پھر "مواقع" کاموقع ہے اس لیے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے "مواقع" والوں سے استدعا کررہے ہیں کہ زیادہ نہیں صرف ایک موقع۔ ایک چھوٹا ساموقع ادھربھی کھسکادیجیے اور ہمیں دعاؤں کاموقع عطافرمائیے، بڑے چھوٹے کابھی سوال نہیں، ان مواقع میں جو سب سے "چھوٹا" ہو، وہی عطا کر دیجیے، ہم تھوڑے کو بہت جان کو ممنون ومشکور ہوجائیں گے۔ اگر یہ سارے مواقع پیداہونے سے پہلے "تقسیم" نہ ہوئے ہوں کیوں کہ سنا ہے کہ مرغی اور مواقع ایسی چیزیں ہیں جو پیدائش سے پہلے بھی کھائی جاسکتی ہیں بلکہ کھائی جاتی ہیں اورکھائی جارہی ہیں۔