منظر بنا لیجیے
لگ بھگ تیس سال ٹی وی ڈرامے لکھ لکھ کر اور پروڈیوسروں کی "صحبت صالح" میں بیٹھ بیٹھ کر ہمارے اندر بھی یہ اچھی یا بری عادت پیدا ہو گئی ہے کہ کوئی بھی خبر یا بات سن کر ہم اس کا "شارٹ ڈویژن" بناتے ہیں۔
شارٹ ڈویژن کا مطلب ہے کہ فوٹو فریم یا منظر بنانا۔ پروڈیوسر لوگ اس کا نمونہ بھی یوں پیش کرتے ہیں کہ اپنے دونوں ہاتھوں کے انگوٹھے اور انگشت شہادت کو پھیلا اور ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر لاکر اس کے اندر مطلوبہ منظر بُنتے ہیں۔
کچھ پروڈیوسر اس کا عملی مظاہرہ یوں بھی پیش کرتے ہیں کہ دونوں ہاتھوں کی دو دو انگلیاں ایک دوسرے پر رکھ کر بیچ میں اپنا خیالی منظر دیکھتے ہیں اسے فریم یا شارٹ ڈویژن بھی کہتے ہیں مطلب یہ کہ جو بات زبان سے ہو رہی ہے وہ کیمرے اور ٹی وی اسکرین پرکیسے دکھائی جاتی ہے یا دیکھی جا سکتی ہے۔
چنانچہ اس عادت کے مطابق ہم جب بھی اخبار میں کوئی دلچسپ خبر دیکھتے ہیں۔ تو فوراً اس کا فریم بنا لیتے ہیں جسے ابھی ابھی جو تازہ ترین سرخی ہم نے اخبار میں پڑھی کہ "نواز شریف پر وزراء کے وار جاری"۔ تو فوراً یہ خبر فریم بن کر شارٹ ڈویژن میں آ گئی اور شنیدہ مانند دیدہ ہو گیا۔
ہم نے دیکھا کہ نواز شریف زمین پر پڑے ہوئے ہیں اور وزیر لوگ بڑھ بڑھ کر ان کے ساتھ مقالات اور مکالات کر رہے ہیں اور اتنے پر جوش ہیں کہ ایک دوسرے کو ہٹا ہٹا کر اور گھس گھسا کر لات مکا کر رہے ہیں جن میں سے اکثر نواز شریف کو لگتی بھی نہیں کہ ایک "پہلے" کو "دوسرا" ہٹا کر حملہ آور ہوتا ہے اور وہ بیچارا کبھی وار روکنے کی کوشش کرتا ہے کبھی ہاتھ آگے کر کے جان بچانے کی کوشش کر رہا ہے ایسی حالت کو اکثر۔"مرے پر سو درے"۔ ہا "مرے کو مارے شامدار" بھی کہتے ہیں۔ بلکہ ہمیں ایک بہت پرانا واقعہ بھی یاد آیا۔
پرانے زمانے کی بات ہے ہم اپنے ایک عزیز کے ساتھ قصہ خوانی بازار میں جا رہے تھے کہ ایک جگہ لوگوں کا ایک ہجوم دکھائی دیتا، بے ترتیب لوگوں کا ایک جمگٹھا تھا درمیان میں ایک آدمی زمین پر پڑا تھا اور لوگ اسے لات مکا کر رہے تھے، ہمارے عزیز کے ہاتھ میں خریدے ہوئے سامان کے تھیلے تھے اس نے فوراً وہ تھیلے ہمیں دیتے ہوئے کہا ذرا پکڑنا تو۔ اور پھر ہجوم میں جا کر اور بھیڑ میں راستہ بنا کر اس گرے ہوئے آدمی کو دو لاتیں رسید کر دیں اس ضروری کام سے فارغ ہو کر وہ باہر آیا تو ہم نے تھیلے پکڑاتے ہوئے پوچھا۔ یہ کیا کیا۔ کیا تم اس آدمی کو جانتے ہو؟ بولا نہیں تو۔ پوچھا پھر مارا کیوں؟ یہ پتہ کیے بغیر کہ کیا ہے کون ہے اور قصور وار ہے کہ نہیں۔ بولا۔ بھئی جب یہ اتنے لوگ اسے مار رہے ہیں تو کوئی قصور تو اس نے کیا ہی ہو گا۔
نواز شریف کے اس فریم یا شارٹ ڈویژن میں بھی ہم کچھ ایسا ہی دیکھ رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کون کون سی لات یا مکا اس تک پہنچ رہا ہے کونسا نہیں یا کچھ مکا، لاتیں ہوا بھی چل رہی ہیں کیونکہ مطلب نہ مکا ہے نہ لات ہے نہ مقالات و بیانات ہے بلکہ "فریم" میں خود کو رجسٹر کرنا ہے۔
"پکڑا ہے" اس صنم کو ہزار طوفان اٹھا اٹھا کر
لگائیں وہ تہمتیں کہ بولا خدا خدا کر خدا خدا کر
لاتوں مکوں کا یہ معیار اور رفتار رہی تو کسی دن ہم کسی منہ سے یہ بھی سن سکتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کو کاٹا بھی اسی ملزم نے ہے۔ 1965ء کی جنگ میں بھی اس نے غداری کی تھی اور ڈھاکا میں جنرل نیازی کو اسی نے ہتھیار ڈالنے کے لیے کہا تھا۔ فیصل واوڈا نے تو فیصلہ سنا دیا کہ کلبھوشن اور نواز شریف ایک جیسے ہیں، ہو سکتا ہے "سوات گلونہ" یہ بھی کہہ ڈالے کہ مودی اور نواز شریف دراصل ایک ہی ہیں کبھی یہاں آ کر نواز شریف بنتا ہے کبھی جا کر وہاں مودی بن جاتا ہے اور چہروں کا کیا ہے وہ تو بچے بھی لگا لیتے ہیں۔ یہاں پر ایک اور کہانی نے دُم ہلانا شروع کر دیا ہے اجازت ہو تو نبٹ لیں۔
کہتے ہیں کسی پرانی جنگ کا ایک سپاہی اپنا کارنامہ بیان کر رہا تھا کہ میں نے دشمن کی ایک ٹانگ کاٹ لی تھی دوسرے نے پوچھا ٹانگ کے بجائے سر کیوں نہ کاٹا۔ بولا، وہ تو پہلے کسی کم بخت نے کاٹ لیا تھا۔ اب قصے سے قصہ نکلتا ہے اسی مقام پر ہمیں اپنے ہمہ جہت ہم صفت اور ہمہ دان بابا جی ڈیموں والے یاد آئے اس "موجودہ لاش" کا "سر" جس نے کاٹا تھا اب نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے۔ کسی اڑتی ہوئی چڑیا سے سنا تھا کہ کہیں دور کسی مقام پر نکاح نکاح کھیل رہے ہیں واللہ اعلم۔ بہرحال اتنا تو کر گئے کہ لاش کی ٹانگیں ہاتھ پیر اور ناک کان کاٹنے والوں کو ایک مشغلہ دے گئے اب جہاں بھی رہے خوش رہے۔ ڈیم ڈیم کھیلیں، نکاح نکاح کھیلیں یا منگنی منگنی۔
تم نے توکہیں ڈیم میں ڈیرے جما لیے
اب یاں کٹے کسی کا بھی سر تم کو اس سے کیا
خیر وہ تو ایک الگ تحقیقی پراجیکٹ ہے جس پرکسی دن ہم اپنا "ٹٹوئے تحقیق" دوڑائیں گے۔ کہ کس لیے آئے تھے اور کیا کر چلے، کیسے یوں اچانک کہیں ٹپکے یا اُگے اور پھر اچانک اپنا پتہ نشان دیے بغیر کہاں چلے گئے۔ بات اس لاش کی ہے جس کا سر وہ کاٹ کر چلے گئے اور اب زمانے بھر کے "سورما" اس پر ٹوٹ پڑے ہیں کوئی درے مار رہا ہے کوئی ٹانگیں، ہاتھ ناک کان کاٹ کر تمغے پا رہے ہیں آپ بھی ہماری طرح ذہن میں فوٹو فریم یا شارٹ ڈویژن بنائیں بڑا دلچسپ منظر ہے بلکہ ہمیں تو ایک بہت ہی پرانا منظریاد آ رہا ہے اگر آپ کو یاد ہو تو جاپان کا ایک پہلوان انوکی تھا اس کا باکسر محمد علی سے مقابلہ تھا۔
محمد علی کلے اسے مکے مارنے کی کوشش میں اس کے گرد گھومتا رہا اور انوکی زمین پر پڑا اسے ٹانگوں سے روک رہا تھا پورا مقابلہ ختم ہو گیا، نہ محمد علی کلے اسے مکا لگانے میں کامیاب ہوا اور نہ انوکی زمین سے اٹھا، مقابلہ "برابر" رہا اور تماشائیوں نے تماشا دیکھا جیسے اب دیکھ رہے ہیں یا ہمیشہ کوئی نہ کوئی تماشا دیکھتے ہیں اور تماشا دکھانے والے کوئی نہ کوئی تماشا ان کو دکھاتے بھی رہتے ہیں اور بیچ بیچ میں کچھ جیب کترے تماشائیوں کی جیبیں بھی کاٹ کر چلے جاتے ہیں کیونکہ
مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے