کس کا کام کس کے نام؟
یہ ایک بہت پراناتنازعہ ہے بلکہ ریڈیائی تنازعہ ہے لیکن ہم صرف ان تنازعات کا ذکرکریں گے جو ہمارے چشم دید یا چشمہ دید یا بلا واسطہ گوش شنید ہے، اس تنازعے کانام اگر رکھنا چاہیں تو وہ ہے "کس کا کام کس کے نام"۔ ادبی اور غیرادبی سرکاری محکموں اور اداروں میں یہ کام ہمیشہ چلتا رہتاہے کہ کرتا کوئی اور ہے اور بیچتا کوئی اور ہے۔
خود ہمارے ساتھ ایسا ایک طویل عرصے تک ہوتا رہا جب بھٹو کے دور میں مولانا کوثر نیازی نے پشاور ریڈیو پر نزلہ گرایا تو وہ نزلہ ہم پر براہ راست گرا کیونکہ ہم ریڈیو میں برسرروزگار تھے۔ تب مجبوری سے ہم نے بھی ایسے بہت سے سمجھوتے کیے کہ کام ہم کرتے تھے اور نام دوسروں کا چلتا تھا۔ یہاں تک کہ ہمارے کام کی پوری پوری کتابیں انھوں نے اپنے نام سے شایع کردیں۔
اس سلسلے کا ایک نیا جھگڑا آج کل چل رہاہے۔ ہمیں اس جھگڑے پر تو کچھ نہیں کہنا ہے کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ لیکن ایسے واقعات کی ابتدا میں جو ایک واقعہ ہواتھا۔ جو ہماری پیدائش سے بھی پہلے کا ہے جس کے سارے کردار اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں، اس کا تسلسل اب بھی جاری ہے۔
جب پشاور ریڈیو کا قیام عمل میں آیا تو ایک بہت ہی مقبول عام قسم کا ڈراما نشر ہوا جو ڈراموں کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ڈراما اس وقت کے ریڈیو کے مدرالمبام اور مختارعام کے نام سے نشر ہواتھا لیکن عوامی سطح پریہ حقیقت کھلی تھی کہ ڈراما ایک اور مظلوم نے لکھا تھا جس پرصاحب نے اپنانام ڈلوایا تھا۔ اب ایک مرتبہ پھر ایک ایسا ہی تنازعہ ہمارے سامنے ہے جو ایک "ان سائیڈر"اور آؤٹ سائیڈر کاہے۔
یہ دولفظ آؤٹ سائیڈر اور ان سائیڈر ایسے سرکاری اداروں اور محکموں میں عام ہیں۔ آؤٹ سائیڈر کا تمغہ امتیاز یا تمغہ حقارت ان تمام لوگوں کے لیے ہوتا ہے جو اس ادارے کے "پکے"یا مستقل ملازم نہیں ہوتے چنانچہ تمام رائٹر فنکار اور صداکارپروگرامر "آؤٹ سائیڈر"شمار ہوتے ہیں اور یہ ادارے ایسے ہی لوگوں کے دم قدم سے چلتے ہیں لیکن پھر بھی یہ نکھٹو سفارشی اور نااہل افسروں، ملازموں کلرکوں یہاں تک کہ چپڑاسیوں اور مالیوں ڈرائیوروں کے مقابل "آؤٹ سائیڈر"ہوتے ہیں۔ ان سائیڈروں کی نگاہ میں آؤٹ سائیڈروں کی حیثیت "پرایوں "کی ہوتی ہے۔
ریکارڈنگ وغیرہ میں آؤٹ سائیڈروں کو تنگ کرنا، چیکوں میں کیڑے نکالنا وغیرہ تو عام ہے خاص طور پر "اسکرپٹ"میں۔ ایک دلچسپ واقعہ مجھے یاد ہے۔ سمندرخان سمندر ایک بہت ہی مقبول پروگرام "حجرہ" لکھتے تھے جو ریڈیو کا سالہا سال سے بیسٹ پروگرام رہاتھا۔ حاجی صاحب اسکرپٹ لاکر پروڈیوسرکے سامنے رکھ دیتے تھے۔ پروڈیوسر بدلتے رہتے تھے۔ ایک دن انھوں نے اسکرپٹ ایک نئے پروڈیوسر کے سامنے رکھا۔ اس زمانے میں پن اور بال پن نہیں ہوتے تھے۔
میز پر نیلی اور سرخ روشنائی کی دواتیں اور ان میں ہولڈر ہوتے تھے۔ پروڈیوسر نے اسکرپٹ دیکھنے سے پہلے ہی سرخ روشنائی میں ہولڈر ڈبوکر ہاتھ میں لے لیا اور اسکرپٹ دیکھنا شروع کیا۔ حاجی صاحب بلا کے تیزمزاج تھے۔
انھوں نے اٹھ کر اسکرپٹ پروڈیوسر کے سامنے سے کھینچ کر اٹھایا اور چل پڑے۔ بڑی مشکلوں سے دوسرے سینئر پروڈیوسروں اور افسروں نے منایا۔ بولے، میں پندرہ سال سے یہ پروگرام لکھ رہاہوں اور یہ گدھا دوسال کا پروڈیوسر ہے۔ اس نے اسکرپٹ دیکھنے سے پہلے ہی بندوق لوڈ کرلی کہ گولی ضرور ماروں گا۔ ان سائیڈر جب دیکھتے ہیں کہ افسر ہم ہیں اور نام آؤٹ سائیڈر کا ہوتا ہے تو کبھی کبھی آؤٹ سائیڈر کو شہید کرکے اس کا خون اپنے چہرے پر ملتے ہیں۔ متذکرہ واقعہ میں بھی صورت حال یہی ہے۔ بیچارے آؤٹ سائیڈر؟ اور یہ ظالم ان سائیڈر۔ یا سگے اور سوتیلے؟ ۔ نہ جانے کتنے خاک نشینوں کا خون ان اداروں میں رزق خاک ہوجاتا ہے بلکہ کردیا جاتا ہے۔