عشق بیچارہ! نہ واعظ ہے، نہ ملا ،نہ حکیم
نام تو اس کاکچھ اورہونا چاہیے لیکن نام رکھنے کااختیار بھی اس کے پاس ہے، اس لیے خود کو "اشرافیہ"کہتی ہے جس طرح انسان نے خود ہی خود کوحیوانات میں "فیلڈمارشل"کا عہدہ دے رکھا ہے ورنہ حقیقت دیکھی جائے اورفیصلہ اعمال کی بنیاد پر ہوتو نہ تو انسان کے لیے اشرف المخلوقات کاٹائٹل درست ہے اورنہ ہی اس بقلم خود اشرافیہ کا۔ مشہورکہاوت ہے، نام زنگی نہد کافور، زاغ کی چونچ میں انگور اورحوردر پہلو لنگور، سارے انسان مل کربھی یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ انھوں نے دنیا کو، باقی حیوانات کو، دھرتی ماں کو یا خود انسانوں کوکوئی ایک بھی فائدہ پہنچایا ہو۔
جانور پالتا ہے تو اپنی غرض کے لیے، دھرتی کو پارہ پارہ اورغار غار کرتا ہے تو اپنے لیے، کوئی تعمیریاکوئی ایجاد کرتاہے تو صرف اپنے لیے، اچھے بھلے آزاد حیوانات کو پکڑ کر یاتو غلام بناتاہے یا ہڑپ کرت اہے یا ان کا کوئی اور فائدہ، دودھ انڈے وغیرہ چھینتا ہے۔
اچھی بھلی صاف ستھری زمین، پانی، ماحول اور سب کچھ کو گندہ کرتاہے، درخت، پودے، پھل پھول اورہمہ روئیدگی کاٹتاہے، جلاتاہے اوربرباد کرتا ہے، کوئی ایک بھی ایسی مثال پیش نہیں کرسکتا کہ اس نے محض شرافت کامظاہرہ کرکے کسی حیوان بلکہ جمادات تک کے ساتھ کوئی بھلائی کی ہو۔
اوراشرافیہ؟ ، جی ہاں! شرافت کی یہ فیلڈمارشل تو اس اشرف المخلوقات کی بھی "اشرافیہ" ہے۔ گویا اسی دودھ کی بالائی اوراس پیڑکا میوہ ہے۔ تو بھلا اس سے کسی بھلائی کی توقع کرنا پتھر سے تیل اوربھینسے، بیل سے دودھ کی توقع کرناہے۔ یہ ہمہ صفت، موصوف اشرافیہ جو دنیا اورانسان کے پندرہ فی صد ہونے کے باوجود پچاسی فی صد وسائل ہڑپتی ہے، ایک عجیب بلکہ عجوبہ عجائب قسم کی چیز تو ہے لیکن "غریب"بالکل نہیں ہوتی بلکہ غربت پیداکرنے کی مشین، کارخانہ یاکھیتی ہے۔
اگر آج ہی کوئی اس کم بخت کو ختم کر ڈالے تو دنیا میں غربت کانام ونشان نہ رہے۔ لیکن عجب اس لیے ہے کہ یہ وہ چیزہے جو ہوتی بھی ہے اورنہیں بھی ہوتی، ہرہرمقام پر جلوہ گر بھی ہے اورغائب ازنظر بھی ہے، یہ نر ہے نہ مادہ لیکن نر بھی ہے اورمادہ بھی، کہنے کویہ زندہ بھی ہے اورمردہ بھی، بلکہ ہرچند ہے کہ نہیں ہے، رہے سامنے اوردکھائی نہ دے، یہ جو کہتی ہے وہ کرتی نہیں اورجو کرتی ہے وہ کہتی نہیں ہے، یہ جب ہنستی ہے تو لوگوں کو رلاتی ہے، صرف رلاتی ہے، ہنساتی کبھی نہیں، اور اگر کبھی ہنسابھی لے تووہ رلانے سے زیادہ درد ناک ہوتی ہے، اس کی خوشی دوسروں کے غم سے نکلتی ہے اوردوسروں کی خوشی سے اسے غم پہنچتا ہے لیکن اتنی کھلاڑی ہے کہ دیوار کی طرح اس غم کی گیند کو اوربھی زورسے دوسروں کے کورٹ میں پہنچاتی ہے۔
یہ وہ گوالاہے جو گائے کو جی بھر کر دوہتا ہے اورجب اس گائے کے اپنے بچھڑے یہاں وہاں گھاس میں چرکر بیل بن جاتے ہیں تو ان کے لیے بھی الگ سے جوئے (یوک) تیار رکھتی ہے۔
ویسے یہ کبھی کبھی "نیک"بھی ہوجاتی ہے۔ اپنے "خون پسینے" سے کمائی ہوئی دولت کو خیرات میں زکواۃ میں اورلنگرخانوں میں غریب غربا کو مفت کھلاتی ہے، محض"ثواب" کے لیے؟ اس ثواب کے لیے کہ اگر بھوکے مرجائیں تو اس کے لیے کمائے گا کون؟
سنا ہے انصاف بھی کرتی ہے اوربہت کمال کا انصاف کرتی ہے، جب چڑیوں میں ان بن ہوجاتی ہے تویہ بلی کا جذبہ انصاف اورخیرسگالی لے کر آگے بڑھتی ہے اوردونوں کو کھالیتی ہے کہ کہیں جھگڑا بڑھ نہ جائے اوروہ ایک دوسرے کو زخمی نہ کردیں۔
یہ وہبلا ہے جس کی "بوہی بو" ہے، آدمیت کہیں نہیں اوروہ بویابدبو اتنی تیز ہے کہ دوردورتک زہرکی طرح ہواؤں میں پھیل جاتی ہے اور نسل انسانی کو بے دم کردیتی ہے، یہ کورونا بھی شاید اسی اشرافیہ کی بدبو ہے جو سب کچھ ہے لیکن اشرافیہ بالکل نہیں ہے۔ کسی بزرگ نے بھی کہاہے کہ شریف اور پرہیزگار وہ ہے جو شریف اور پرہیز گار بالکل نہ ہو، باقی سب کچھ ہو۔ فریدہ خانم نے بھی کہاہے جو ہمیں پورایاد نہیں آرہاہے لیکن کچھ یوں ہے کہ۔
سب کچھ ہے کچھ نہیں ہے یہ حالت بھی خوب ہے
رذالگی کا نام شرافت بھی خوب ہے
سب سے بڑی اورآخری بات یہ کہ آج تک کسی نے بھی اسے نہ دیکھا ہے نہ پہچاناہے کیوں کہ بھیس بدلنے میں بھی اس کاکوئی ثانی نہیں۔
عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بیچارہ! نہ واعظ ہے، نہ ملا، نہ حکیم