بہت بے برکت ہاتھ
ویسے تو ہم آپ کو اس خاتون کی کہانی سناناچاہتے ہیں جس کے ہاتھ میں "برکت"نہیں تھی لیکن اس کہانی کو ہم کسی اور وقت کے لیے رکھ دیتے ہیں لہٰذا بادشاہ کی کہانی سنارہے ہیں جس کے "منہ" میں برکت نہیں بلکہ نحوست ہی نحوست تھی۔ اس ملک کا بھی ذکرنہیں کریں گے جہاں کا وہ بادشاہ عالم فنا تھا اورقہرخدا تھاکہ اس میں صرف کالانعام رہتے تھے جو دیکھنے میں تو انسان لگتے تھے لیکن ہوتے نہیں تھے بلکہ ہوتی کا… بھی نہیں تھے۔
بادشاہ ایک جنگل میں شکار کے لیے گیا کیوں کہ شہرمیں "شکار" سے اس کادل اچاٹ ہوگیا تھا۔ ہرروز ایک طرح کے جانوروں کاشکار، ایک طرح کے شکاری کتے اورایک طرح سے باندھ کر شکار کرنے میں مزنہیں آرہاتھا۔ جنگل بیاباں میں وہ اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا، یہاں وہاں گھوڑا دوڑاتارہا، بھوک پیاس سے برا حال ہوگیا، پہلے وہ اپنے پیٹ سے پوچھتا تھا، کیا کیا کھاؤگے اوراب پیٹ اس سے پوچھ رہاتھا کہ کیا کھلاؤ گے، پلاؤگے۔ اچانک اسے لق ودق صحرامیں ایک ہرا بھراباغ دکھائی دیا۔ اسے یوں لگا جیسے ڈوبتے ہوئے کو جزیرہ مل گیاہو۔
باغ میں پہنچا تو باغبان نے خیرمقدم کرتے ہوئے خدمت پوچھی۔ وہ اسے کوئی عام بھٹکا ہوا مسافرسمجھاتھا، بادشاہ نے بتایاکہ پہلے پیاس بجھادو۔ باغبان وہاں سے نکل گیا، واپس آیاتو اس کے ہاتھ میں ایک بڑاساانار اورایک بڑاساجام تھا۔ اس نے انارکو جام میں نچوڑاتو جام لبالب بھرگیا۔ بادشاہ نے تازہ فرحت بخش شربت انارپیاتو جیسے نئے سرے سے جی اٹھا ہو اور پھر وہی کیا جو بادشاہ کرتے ہیں، عالم فنا کرتے ہیں اوراپنے منحوس دماغ سے اس نے یہ منحوس مکھی چوس آئیڈیا نکالاکہ اس قسم کے اناروں سے اس باغبان کو بہت زیادہ آمدنی ہوتی ہوگی، اس لیے اس پر ٹیکس لگانا ضروری ہے۔
دراصل بادشاہ کو بھی ان دنوں اپنی آئی ایم ایف کاسامناتھا۔ ملک کی ساری رقم تو ملکہ، شہزادے شہزادیاں ہڑپ کرلیتے تھے، باقی صرف مہنگائی بچ جاتی تھی چنانچہ آئی ایم ایف سے قرضہ لیناپڑتاتھا جو زندگی چھوڑسکتی تھی لیکن سود نہیں۔ چنانچہ بادشاہ کی منحوس کھوپڑی میں یہ خیال آیا کہ اس باغ والے پر بھی دو چار ٹیکس ٹھوک دیے جائیں تو اچھاخاصا فائدہ ہوجائے گا، زیادہ سے زیادہ یہ باغبان مفت کے مہمانوں اور مسافروں کو کھانا پلانا چھوڑدے گا یااپنا باغ بیچ ڈالے گا یاشاید مرجائے یا شاید پوراخاندان بھوک کے مارے باجماعت خودکشی کرلے گاتو اس میں بادشاہ اور اس کے درباریوں کا کیا نقصان ہوجائے گا۔
یہ سب ٹھان کر اس نے باغبان سے کہا کہ اچھا بھائی میں جارہاہوں، تم ایک مرتبہ پھر انارکاجوس پلادو۔ باغبان نے ایک انارنچوڑا، دوسرا نچوڑالیکن جام بھر کر نہیں دے رہاتھا، یکے بعد دیگرے پورے آٹھ انار نچوڑنے پر جام بھر گیا، بادشاہ نے جوس پیتے ہوئے سوال پوچھا، یہ کیا، پہلے ایک انار سے جام بھر گیا تھا، اب آٹھ انار خرچ ہوئے، کیا اناروں میں کوئی فرق ہے؟
باغبان نے جواب دیا، اناروں میں کوئی فرق نہیں، سب ایک ہی درخت کے ہیں، سائزمیں بھی فرق نہیں ہے۔ تو پھر بادشاہ نے پوچھا۔ پھر یہ کہ "فرق" یاتومیری نیت میں آیاہے یا پھر اس ملک بادشاہ وقت کی نیت میں … مجھے تو معلوم ہے کہ میری نیت ویسی ہے جیسی پہلے تھی، لگتا ہے بادشاہ کی نیت میں فرق آگیا ہے۔ باغبان بیچارے کو تومعلوم ہی نہیں تھا کہ وہ منحوس "نیت" اس کے سامنے کھڑی ہے۔ وہ تو اسے عام راہگیر سمجھ کر اﷲ کی خوشنودی کے لیے خدمت کررہاتھا لیکن دراصل وہ راہگیرہی رسہ گیر، عوام گیر، ٹیکس گیراورسب کچھ "گیر" تھا۔ اس کے بعدکیاہوا؟ کہانی کاراوی اس سلسلے میں خاموش ہے۔
کیوں کہ وہ سرکاری راوی نہیں ہے، اگر سرکاری درباری بینگن کی ترکاری ہوتاتواس کے بعد بادشاہ کی پشیمانی مہربانی اورگل فشانی کی بڑی سی "وانی" یعنی قصیدہ خوانی کرتالیکن قیاس کہتاہے، بادشاہ بدستور بدنیت رہا، بدنیت چلا گیا اور اپنی بدنیتی کو باغ پر لاگوکیا۔ اب باغ بھی سوکھ رہاہے، باغبان بھی رورہاہے، صرف بادشاہ اور درباری خوش ہیں اورآئی ایم ایف خوش ہے۔ چلیے تھوڑاساباغ کاحساب لگاتے ہیں۔ انگریزوں سے آزادی کے ذریعے حاصل ہونے فصل بھی باغ ہی میں ہے۔
باغ میں درخت بھی بڑے ہوگئے ہیں، نئے نئے پودوں کے پروان چڑھنے سے درخت بھی زیادہ ہوگئے ہیں مثلاً سڑکوں کے درخت، پلوں کے درخت، نہروں شہروں کے درخت، قیمتوں کی روزانہ بنیاد پر اگنے والے درخت، چالیس چوروں کے درخت، یہاں وہاں سے کشکول کے درخت، لیکن فائدہ کیا، جب درخت ہی بانجھ ہورہے ہوں، انارسوکھ رہے ہوں اوربادشاہ کی نیت خراب سے خراب ترہوتی جارہی ہو تو، غم خوار کیا کرے، مسیحاہی قاتل ہوتوبیمار کیا کریں۔ ایک اور کہانی دم ہلانے لگی ہے۔
کہتے ہیں سڑک پر ایک آدمی بے ہوش پایا گیا۔ کچھ لوگ اسے اسپتال لیے گئے، ڈاکٹروں نے معائنہ کیا، سب کچھ ٹھیک چل رہاتھا، طرح طرح کے اسپیشلسٹ بلوائے گئے، ٹیسٹ ہوئے، ایکسرے لیے گئے، بیماری کاکوئی پتہ نہیں چلا۔ ڈاکٹر تھک ہار کر بیٹھ گئے کہ اتنے میں ایک اردلی نے تشخیص کرلی کہ بیچاراکسی بیماری سے نہیں بلکہ بھوک پیاس سے بے ہوش ہوا تھا، یعنی ولی راولی می شناسد اورگرسنہ را گرسنہ می شناسد۔۔
عالم غباروحشت مجنون ہے سر پر
کب تک خیال طرہ لیلیٰ کرے کوئی