آریا کے پیچھے پیچھے (پہلا حصہ)
ہم نے لفظ کا تعاقب کیاکہ گویا دبستان کھل گیا کچھ اور ایسے ناموں اور الفاظ کے بارے میں بھی پوچھا گیا ہے جو مشہور تو بہت ہیں لیکن ان کی اصلیت کسی کو معلوم نہیں اپنے الفاظ میں سے ایک لفظ یا نام "آریا" بھی ہے جو شاید دنیا کا سب سے بڑا غلط العام ہے اور یہ غلط العام ہند کے برہمنوں کا پھیلایا ہوا ہے۔ بحث جب آگے بڑھے گی تو برہمن کے لفظ یا نام پر بھی بحث ہوگی۔
ہند میں وارد ہونے والے خانہ بدوش قبائل جنھیں آریا کہا گیا لکھا گیا اور پھیلایا گیا کہ اب اس کی تصحیح ممکن ہی نہیں رہی ہے جب کہ وہ تو وارد صحرائی اور خانہ بدوش قبائل آریا تھے ہی بلکہ آریوں کے جدی پشتی دشمن اساک تھے جنھیں بعد کے زمانوں میں ساکا، شاکھا، استی، ایسی، سکتی اور یونان میں سیتھین کہا گیا، مشرقی نوشتوں میں ان کو نورانی کا نام دیا گیاہے اور ہند میں بھی کھشتریوں کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔
لفظ آریا اب زبانوں میں کتابوں میں نصابوں میں اور علمی دنیا میں اتنا زیادہ پھیل چکا ہے کہ غلط العام ہونے کے باوجود نکالا نہیں جا سکتا۔ نئے دور کے بہت سارے محقق اس غلط العام سے آگاہ ہو چکے ہیں۔ ہند کے ایک معروف محقق اور مورخ پروفیسر محمد مجیب نے اپنی کتاب تاریخ تمدن ہند میں ایک انگریز محقق جوزف کی کتاب دی یورپین کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس لفظ آریا کو اب ترک ہی کر دینا چاہیے لیکن یہ اتنا پھیل چکا ہے کہ اس کی تصحیح کے لیے بھی اتنا عرصہ درکار ہے جتنے عرصے میں یہ پھیل چکا ہے۔
تحقیق کا ناقص طریقہ جو اکثر استعمال کیا جاتا ہے یہ کہ پیڑ یا پودے کو کھینچ کر نکالاجاتا ہے جس سے اس کی ساری جڑیں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں، کچھ زمین میں رہ جاتی ہیں، کچھ آدھی ادھوری نکل آتی ہیں اور صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس کے گرداگرد ایک فراخ اور کھلا گڑھا کھودا جائے اس طرح اس کی تمام جڑیں سامنے آجاتی ہیں اور میں یہی طریقہ استعمال کرتا ہوں، ہند کے براہمنوں نے تو اپنے نوشتوں میں آریا کے صرف مجازی اور صفاتی معنی مشہور کیے ہوئے ہیں۔ شریف نجیب اصیل، بہادر، سخی، فراخ دل، مہمان نواز وغیرہ۔ سارا ہندی لٹریچر چھان مارئیے لفظ آریا، کے لغوی اور بنیادی معنی کہیں نہیں ملیں گے۔
آریا مت کے دوسرے بڑے علمبردار جرمنی کے ہاں بھی آریائی فخر کا دعویٰ تو بہت بڑا ہے لیکن لفظ آریا کا لغوی اور استحکامی مفہوم کہیں بھی نہیں ہے کہ یہ لفظ کس زبان کا ہے اس کی اصل ابتدائی شکل کیا ہے اور معنی کیا ہیں؟ زیادہ سے زیادہ بات "ورو"یا وروس تک پہنچ جاتی ہیں جو آریاؤں کے اجداد بتائے جاتے تھے اوراپنے اصل وطن میں غیر منقیم ہند یورپی زبان بولتے تھے۔ آگے پھر وروس کے بارے میں سوالات موصعیت اور وطنیت کے اختلافات کا اورچستان ہے۔
لیکن دنیا کے مروجہ نصابی اور روایتی علوم میں وہ انتہائی اہم بات نظر انداز کردی گئی ہے جو اس کا ئنات کی ہر چیز کی بنیاد ہے اور وہ ہے ثنویت یا دوالزام یا ہندی اصطلاح میں ادوتیاواد۔ حتیٰ مطلع میں ین (Yen) اور ینگ (Yeng) اور اسلامی و قرآنی اصطلاح میں ازواج اور طبیعاتی اصطلاح میں منفی مثبت۔
انسان نے بھی جب اس زمین پر زندگی کا آغاز کیا تو پہلے ایک ایسا زمانہ گزرا جسے جنت کا سا زمانہ کہا جا سکتا ہے، سب کچھ وافر تھا، آبادی کم اور خوراک زیادہ۔ تب کوئی جھگڑا تنازعہ کیاکش مکش نہیں تھی لیکن جیسے آبادی بڑھتی گئی اور خوراک کم پڑتی گئی انسانوں میں دو گروہ بن گئے۔ ایک وہ جس کے خوراک کا ذریعہ زمین تھی یہ سبزی خور، غلہ خور، پھر زراعت کار بن گئے اور دوسرا گروہ وہ جو گوشت خور بنا اس کا انحصار جانور پر تھا چنانچہ وہ شکاری، جانور پال اور خانہ بدوش صحرائی بن گئے۔
زراعت کاروں کا سب کچھ زمین سے تھا اس لیے انھوں نے زمین ماں کا نظریہ اپنایا۔ یا پرتوی ماتیرس کا۔ جانور پال صحرائیوں کا انحصار آسمان کی بارش سے گھاس، سورج سے برف پگھلنا اور سبزی کا اُگنا۔ چنانچہ وہ آسمان باپ یا دیوس تیرس کے علمبردار ہو گئے۔
اور یہیں سے دو لفظ ہمارے ہاتھ آتے ہیں۔ ایک "اس" اور دوسرا" ار"
اس کا مطلب بنیادی طور پر بلند اوپر یا بالا کا ہے چنانچہ آسمان، اسکائی، آکاش، اسوریہ جیسے الفاظ بنے۔ پھر اسی سے اسٹار، اختر، ستارے اور اس (کھوڑا) بھی متحرج ہوئے۔ اس یا گھوڑا عام طور پر سورج اور آسمان کا بیٹا۔ سمجھا جاتا ہے ہندی دیومالا میں اشونی کمار دو جڑواں ستارے یا بھائی ہیں جو گھوڑے بھی ہیں۔ قدیم مذاہب میں سورج دیوتا اور اکثر گھوڑے کی قربانی پیش کی جاتی تھی یعنی آسمان کے سب سے طاقتور کو زمین کے سب سے طاقتور کی قربانی۔ ہندی میں اسے اشومیدیگیہ کہتے ہیں۔
بنیادی موضوع تو ہمارا لفظ آریا ہے لیکن مجبوری یہ ہے کہ ار اور اس کو ایک دوسرے سے الگ بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہر زوج میں منفی اور مثبت ایک دوسرے کے مقابل اور متضاد بھی ہوتے ہیں لیکن ایک دوسرے کی پہچان بھی ہوتے ہیں یعنی منفی وہ ہے جو مثبت نہیں ہے اور مثبت وہ ہے جو منفی نہیں ہیں۔
ان دونوں الفاظ ار اور اس کو بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ دونوں کا وجود ایک دوسرے سے بندھا ہوا ہے اس کا مطلب اوپر اور ار کا مطلب نیچے۔ یعنی آسمان اور زمین۔ اور یہ دو انسانی گروہ بھی ار جن کا تعلق زمین سے ہے اور اس جن کا تعلق آسمان سے ہے اور پھر آسمان کے بیٹے گھوڑے سے ہے۔ ار وہ جو زراعت کار تھے۔ اور اس کی نسبت سے اساک وہ جو گھوڑے والے خانہ بدوش صحرائی تھے۔ اس کا کچھ نہ کچھ ذکر تو ہو گیا ہے، ار کا ابھی باقی ہے۔ جس کی اصل بنیاد اڑ ہے۔
اڑ، یا "اِر"کی بات آگے بڑھانے سے پہلے تھوڑی سی بات زبانوں کی بھی ہو جائے مشرق اور مغرب کے علمائے لسانیات سب اس پر مستحق ہیں کہ انسان کی پہلی زبان انتہائی سادہ اور چند آوازوں پر مشتمل تھی خاص طور پر مشرق نے اس ابتدائی زبان کو سریانی کہا ہے جس کا ہر حرف اسی لفظ سے ہوتا تھا اور اس کے معنی علتوں یا حرکات سے بدلے جاتے تھے۔
جیسے الف ایک لفظ تھا لیکن اس کو (اَ، اِ، اُ) سے مختلف معانی دیے جاتے تھے۔ اَ، کا مطلب سامنے اور دکھائی دینے والی چیز۔ اِ، کا مطلب بولنے والا یا بولنے والے کے پاس موجود چیز۔ جب کہ اُ، سے مراد بہت دور اور غائب چیزیں۔ بھراَ سے مراد مستفیل۔ اِسے مراد جان اور اُ، سے مراد ماضی۔ اسی طرح تیرا میرا اور اس کا بھی تم میں اور وہ بھی۔
اس کے بعد دو حرفی زبانوں کا مرحلہ آتا ہے چنانچہ یورپی زبانوں میں بنیادی مادے اکثر دو حرفی ہوتے ہیں جسے سر، کر، حر، مر، چل، بل جب کہ سامی زبانوں میں جو تیسرے اور ترقیاتی مرحلے کی زیادہ مالا مال زبانیں ہیں بنیادی علم، جہل، راس، قار، جار، قال، مال وغیرہ ایک اور خاص بات یہ کہ انسان اور انسانیت۔ یا بچے اور اقوام کا معاملہ ایک جیساہوتا ہے جس طرح بچہ۔ پہلے، پہل، بولنے اورچلتے ہوئے لڑ کھڑاتا ہے۔
گرتا پڑتا ہے اور ٹیڑھا، میڑھا۔ جیتا اور بولتا ہے پہلے یک حرفی آوازیں نکالتا ہے پھر نیا اور مراحل ساؤنڈ یعنی آلات نطق۔ ہونٹ، زبان، حلق وغیرہ۔ نئے اور کھردرے ہونے کی وجہ سے الفاظ بھی آدھے ادھورے یا کھردرے نکالتا ہے۔ اسی طرح انسانیت کا مخرج بھی جب کھردرا۔ نیا اور کچا تھا تو یہی ہوتا تھا جس طرح بچے کی زبان سے ڑڑڑ، ڈا، ڈا، ڈا زیادہ نکلتا ہے اسی طرح انسانوں کی پہلی زبان میں بھی اڑ بہت زیادہ تھی۔ جس کے اثرات آج برصغیر کی اکثر زبانوں میں موجود ہیں۔
پشتو، پنجابی، سندھی، گجراتی وغیرہ میں (اڑ) کی کثرت ہے اور یہ دراوڑی یا قبل آریائی زبانوں کے گروپ میں ہے اور نہ ہی سامی زبانوں۔ یہ صرف یا آواز برصغیر میں پایا جاتا ہے اور ان زبانوں سے آیا ہے جسے آج کی اصطلاح میں قبل آرائی یا نیردٹونڈویورپین زبانیں کہا جاتا ہے بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ (ڑ) کا حرف سنسکرت میں بھی نہیں۔ بعد کے زمانوں میں نہ صرف سنسکرت اور سندی میں بولنے کی حد تک تو آیا ہے لیکن برہمی یا دیوناگری یا آریائی تمام الفابیٹ میں اس کے لیے حر ف آج بھی موجود نہیں چنانچہ سنسکرت الفابیٹ میں اسے (ڑ) (ڈ) سے لکھا جاتا ہے اور کہیں کہیں بولا بھی جاتا ہے۔
سڑک کو سڈک، لڑائی کو لڈائی۔ بوڑھا بڑھیا کو بڈھا بڈھی۔ گاڑی کو گاڈی۔ ٹیڑھے کو ٹیڈھا۔ لڑنے کو لڈنا۔ لکھا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ صرف (ڑ) آریائی گروپ میں بھی نہیں اگر ہے تو ساؤتھ کی تامل نیلگو، ملیالم۔ اڑی وغیرہ زبانوں میں ہیں یادراوڑی اثرات رکھنے والی زبانوں پشتو، سندھی، پنجابی، گوجری اور سرائیکی زبانوں میں ہے۔
(جاری ہے)