آج نقد کل ادھار
کوئی برا مانتا ہے تو مانے، ناراض ہوتا ہے تو ہو لے بلکہ اگر لٹھ لے کر ہمارے پیچھے دوڑتا ہے تو دوڑے۔ کہ پہلے بہت سارے لٹھ باز، یہ بڑے بڑے لٹھ لے کر ہمارے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ ہم تو "سچی" کہیں گے اور سچی کے سوا کوئی "کچی" نہیں کہیں گے کہ ہم ابھی اس "بچی کچھی" مہلت میں کیا سدھریں گے؟
پنج روزے کہ دریں مرحلہ مہلت داراں
خوش بیا ساکی زمانے کہ زماں ہمہ نیست
ویسے بھی جس طرح دانا دانشوروں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ"دانش"احمقوں سے سیکھتے ہیں اور اگر دنیا میں احمق نہ ہوتے تو دانا دانشور اب تک بھوکوں مر چکے ہوتے۔ ٹھیک اسی طرح ہم نے اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے دانشوروں سے بے پناہ حماقتیں سیکھی ہیں جن میں ایک حماقت بلکہ ساری حماقتوں کا باپ یہ "سچ" کہنا بھی ہے۔
اور آج ہم یہ "سچی" کہنے والے ہیں کہ یہ دنیا "کل کے سوداگروں "سے بھری ہوئی ہے "کل کے سوداگروں " کو شاید آپ اچھی طرح نہیں جانتے تو ہم بتائے دیتے ہیں، کل کے سوداگروں کا بانی مبانی وہ نجومی تھا، جس نے ایک شخص کو چالیس سال بعد حالات کے سدھرنے کا مژدہ سنایا تھا۔ یہ سارے کے سارے اس تھیلی کے چٹے بٹے ہوتے ہیں جو "اشرافیہ" عرف حکمرانیہ عرف قانونی لٹیرے عرف ابلیسیہ کے پاس ہوتی ہے جب یہ ابلیسیہ عرف اشرافیہ۔ کالانعاموں کو "آج" لوٹ رہی ہوتی ہے تو یہ چٹے بٹے لٹنے والوں کو "کل" کی خوش خبریاں رنگ برنگے باغ اور پیراڈائز دکھارہی ہوتی ہے:
گرآج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ چار دن کی جدائی توکوئی بات نہیں
گر آج اوج پہ ہے طالع رقیب توکیا
یہ چار دن کی خدائی توکوئی بات نہیں
حالانکہ یہ "چاردن" ہزاروں سال سے چل رہے ہیں ختم ہونے میں نہیں آتے۔"بس مری جان کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں " آخر کتنے تھوڑے ہیں ہزاروں سال تو گزر گئے۔ لیکن فریاد کے یہ تھوڑے دن لمبے ہی ہوتے جا رہے ہیں:
ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔ وہ"دن"جس کا وعدہ۔ جب ظلم وستم کے کوہ گراں روئی کی طرح اڑ جائیں گے جب ارض خدا کے کعبے سے سب بت اٹھائے جائیں گے۔ لیکن اس "جب" کا کب؟ آج تک نہ آئی ہے اور نہ آئے گی، کہ کل جب آتی ہے تو وہ "کل" نہیں "آج" ہوتی ہے اور "آج" تو ان کا ہے۔ ویسے بھی دنیا میں کبھی"کل" نہ آئی تھی نہ آئی ہے اور نہ آئے گی کیونکہ آتے آئے وہ "آج" ہو جاتی ہے اور کل کو کل پر دھکیل دیتی ہے۔ اور یہ جو "آج کے مالکوں " کے سارے حال موالی یعنی شاعر وہ صورت گر و افسانہ نویس ہیں یہ "کل" کے علمبردار ہیں۔
سیدھی زبان میں کہیے کہ۔"آج" لوٹنے والوں کے طرف دار۔ مت رو۔ خدا خیر کرے گا۔ ان کو لقوہ ہو جائے گا فالج ہو جائے گا تمہارا سرکڑاھی میں ہو جائے گا وہ دیکھو وہ سامنے سبزباغ دیکھ رہے ہو یہ تمہارا ہے بس چند قدم چند روز کی بات ہے۔ آپ نے اکثر دکانوں پر لکھا ہوا دیکھا ہو گا۔"آج نقدکل ادھار" اور دنیا کے تمام فلسفے، نعرے ترانے شاعری قوالیاں سیاستیں، مذاہب اور لارے لپے۔ ان ہی چار لفظوں میں سمائے ہوئے ہیں اور ان سے نکلتے ہیں آج نقد، کل ادھار۔ اور بڑے آرام سے "آج" والے "نقد" وصول کر رہے ہیں کھا پی رہے ہیں ہڑپ رہے ہیں نگل رہے ہیں اور"کل" والوں کو دور بٹھا کر کل کے باغوں کے طلسم دکھا رہے ہیں
من کہ امروز "بہشت نقد" حاصل می شود
وعدہ فردائے زاہد را چرا باور کنم
وعدہ فردا، کل، امید فردوس گم گزشتہ، سب کچھ آج والوں کے حربے اور طریقہ ہائے واردات ہوتے ہیں ہم نے پہلے ایک بہت ہی مشہور"کل" والی نظم کا ذکرکیا ہے جو تمام "کل" کی قوالیوں کا خلاصہ ہے اورا س میں کمال فن یہ ہے کہ کہیں کا روڑا کہاں لا کر جوڑا گیا ہے، آج نکال کردنیاوی کل پر چسپاں کیا گیا ہے۔ جب ظلم و ستم کے کوہ گراں روئی کی طرح اڑ جائیں گے، جب ارض خدا کے کعبے سے سب بت اٹھوائے جائیں گے جب "اہل حکم" کے سروں پر یہ بجلی کھڑکھڑکھڑ کے گی جب ہم محکوموں کے پاؤں تلے یہ دھرتی دھڑدھڑ دھڑکے گی، جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے جب راج کرے گی خلق خدا، جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔ یہ ساری باتیں تو کہیں ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہ کب؟ جب کہ اس "جب" کے ساتھ "کب" کہیں نہیں ہے۔ ہ
میں ایک بہت پرانا واقعہ یاد آتا ہے پبی بازار میں اتوار اور جمعرات کو میلہ لگتا تھا جس میں طرح طرح کے لوگ آ کردکانداری کرتے تھے۔ ان میں ایک شخص زمین پرچٹائی بچھاکر کھجور بیچتا تھا سستا زمانہ تھا۔ چار آنے سیر کجھور کا نرخ تھا لوگ آنے دو آنے کی کجھور خریدتے تھے، بھیڑ بھاڑ میں اسے کسی نے کھوٹا روپیہ دیا تھا اور اس کھوٹے روپے کو دکھا کھاکر رو رہا تھا۔ ظالموں نے مجھے برباد کر دیا، خدا ان کا وہ کرے یہ کرے۔ روپیہ تو آج ملک چھوڑ کہیں فرار ہو چکا ہے یا شرم کے مارے چلو بھر پانی یا پسینے میں ڈوب کر خودکشی کر چکا ہے۔
اس زمانے میں بازار کا صدر نشین ہواکرتا تھا مزدور کی عام دیہاڑی چھ سات آنے ہوا کرتی تھی چنانچہ اس کجھور والے کی بھی شاید دن بھر کی آمدنی وہی ایک روپیہ تھی اور وہ کھوٹا نکلا تھا اس لیے اس کا رونا اور بددعائیں دینا بجا تھا۔ ایک بزرگ نے گویا اس کی اشک شوئی کرتے ہوئے کہا غم نہ کرو آخرت میں کہاں جائے گا۔ اس پر وہ جلا اور جل گیا۔ میں آخرت میں روپیہ لے کر کیا کروں گا اس نے تو یہاں میرا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ یہ کل بیچنے والے آج لوٹنے والوں کے طرف دار تو بہار جانفزا دکھلا کرچلے جاتے ہیں، آنے والی کل کل کر کے گزشتہ کل ہو جاتے ہیں اور پیچھے صرف "کل"چھوڑ دیتے ہیں
آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر
اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
یہ کھلونے دے کر بہلانے والے معلوم نہیں جانتے ہیں یا نہیں کہ وہ اصل میں "آج" لوٹنے والوں کی طرف داری کرتے ہیں، یہ نہ ہوتے توشاید کسی دن "آج" لوٹنے والوں سے تنگ آ کر بجنگ ہو جاتے
یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں
ان ہی کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو