دی سیویج فرنٹیئر
انسان ہمیشہ سے ہی جبلی طور پر چند چیزوں کے سامنے مزاحمت نہیں کر سکا چاہے اس کام میں جان جائے یا جتنی مشکلات پڑیں۔ انگریزی کا ایک لفظ ہے Temptation جس کے لیے اردو میں مختلف لفظ موجود ہیں جیسے لالچ، ترغیب وغیرہ۔ لیکن میرے خیال میں کوئی ترجمہ اس لفظ کا اصل مفہوم واضح نہیں کرسکتا۔ انسان شروع سے ہی مفت اور خوبصورت چیزوں کا شوقین رہا ہے۔
اب اس سے اندازہ لگائیں کہ پچھلے زمانوں میں بادشاہ کو کسی دوسرے ملک کا ایلچی ملنے جاتا تھا تو تحائف سے لدہ ہوتا تھا تاکہ بادشاہ کے دل میں اپنے ملک کے حکمران کے لیے اچھے جذبات پیدا کرسکے اور جس کام کے لیے اسے بھیجا گیا تھا اسے نکلوانے میں آسانی رہے۔ اب بتائیں ایک بادشاہ کو تحائف کی کیا ضرورت ہوتی ہوگی جو پہلے ہی ایک ملک کا مالک ہے اور سب کچھ اس کا ہے؟
لیکن نہیں تحفے/تحائف کی اپنی ایک الگ سے کشش ہے جو ایک بادشاہ تک کو بھی موم کردیتی ہے اور وہ جھوم اٹھتا ہے اور پھر جو کچھ مانگا جاتا ہے وہ مل جاتا ہے۔
انگریزوں نے بھی ہندوستان میں قدم جمانے کے لیے یہی صدیوں پرانا آزمودہ نسخہ مغلوں پر آزمایا اور پرمٹ لے کر تجارت شروع کی اور ایک دن پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔
خیر اس لمبی تمہید کا مقصد اس کتاب میں درج ایک واقعہ سنانا ہے کہ انگریز اب پنجاب پر آنکھیں جمائے بیٹھے تھے۔ اس وقت رنجیت سنگھ پنجاب کا مالک تھا۔ اب رنجیت سنگھ کے دربار تک رسائی اور اس سے پنجاب کا پورا نقشہ/چارٹ بنانے کے لیے اس کی اجازت درکار تھی۔ شاید رنجیت سنگھ کو بھی علم نہ تھا کہ یہ گورے mapping کیوں کرتے ہیں۔
خیر سوچ بچار کے بعد طے ہوا کہ رنجیت سنگھ کی کمزوری تلاش کی جائے۔ مخبروں نے خبر دی کہ رنجیت سنگھ خوبصورت لڑکیوں، خوبصورت گھوڑوں اور شراب کا شوقین تھا۔ اب انگریز اپنے ساتھ خواتین تو لائے نہیں تھے کہ تحفہ کے طور پر پیش کی جاتیں جیسے ترک بادشاہوں کے ہاں رواج تھا کہ ہر فتح بعد وہاں کی لڑکیاں غلام بنا کر حرم میں ڈال دی جاتی تھیں (جیسے حریم سلطان)۔
اس لیے طے ہوا کہ رنجیت سنگھ کو ولایتی شراب کا چسکہ لگایا جا جائے۔ ساتھ میں اعلی نسل کے گھوڑے۔
یوں 1830 میں پانچ خوبصورت گھوڑے چھکڑے ساتھ پیش کیے گئے اور رنجیت سنگھ سے دریائے سندھ سے لاہور تک کی میپنگ کی اجازت مل گئی۔ اس کام کے لیے ایک پچیس سالہ نوجوان الیگزنڈر برنز جس کا تعلق سکاٹ لینڈ سے تھا کی خدمات حاصل کی گئیں جو سولہ سال کی عمر سے انڈیا میں رہ رہا تھا۔ اس سے پہلے وہ نوجوان کابل ایک "ٹریڈ مشن" سے بھی ہو آیا تھا۔
راجہ رنجیت سنگھ کو وہ گھوڑے بہت پسند آئے۔
اس نوجوان نے لاہور سے لدھانیہ کا سفر کیا جہاں اس نے افغان جنجگو شجاع الملک سے ملاقات کی جو کابل سے اپنے بھائی سے شکست کھانے بعد بھاگ کر پہلے پنجاب میں راجہ رنجیت سنگھ کی پناہ میں رہ رہا تھا تو اب انگریزوں نے اسے لدھیانیہ میں ایک گھر لے کر دیا ہوا تھا اور اسے ہر ماہ خرچہ بھی اسے دیتے تھے۔
وہ جلا وطن افغان شاہ شجاع ابھی بھی پرامید تھا کہ ایک دن وہ اپنے بھائی سے کابل واپس چھین لے گا۔ شاہ شجاع اس سکاٹ نوجوان سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی مدد کا خواہشمند تھا اور اس کے بدلے وہ انگریزوں کو سینٹرل ایشاء تک راستہ دینے کو تیار تھا۔ لیکن سکاٹ نوجوان اس شاہ شجاع سے مل کر مایوس ہوا اور واپس جا کر اس نے جو رپورٹ لکھ کر اوپر بھیجی اس میں لکھا کہ یہ ہمارے کسی کام کا نہیں ہے۔ یہ افغان مجھے متاثر نہیں کرسکا۔ اگر ہم اسے دوبارہ کابل پر بٹھا بھی دیں تو بھی یہ اسے نہیں سنبھال سکے گا۔