Friday, 15 November 2024
  1.  Home
  2. Rauf Klasra
  3. Sharmeela Multani Billa

Sharmeela Multani Billa

شرمیلا ملتانی بلا

آپ نے کبھی سنا کہ بلا بھی شریف یا شرمیلا ہوتا ہے؟ میں نے بھی کل تک نہ سنا تھا نہ دیکھا تھا۔ لیکن اب مل بھی لیا اور دیکھ بھی لیا پورا ایک عدد خوبصورت شرمیلا ملتانی بلا۔

مجھے مزاجا بلیاں بہت پسند ہیں۔ ان کے نخرے، اسٹائل اور مست ہو کر سونے کا انداز اور ان کے موڈز سوئنگ۔ ہمارا گھر بلیوں کا مسکن ہے۔ سب باہر رہتی ہیں۔ صرف عنایہ بیگم کی فئیری کا گھر کے اندر راج ہے۔

ان کا دودھ اور کھانے پینے کا بجٹ الگ ہے۔ میں اور مہد ان کی خدمت پر مامور رہتے ہیں۔ بلیاں سارا دن آوارہ گردی بعد جب انہیں بھوک لگتی ہے تو ہمارے گھر کا رخ کرتی ہیں۔ دروازے پر دستک دیں گی کہ لنچ یا ڈنر سرو کیا جائے۔ اکثر خود بھی ادھر ہی پلی بڑھی ہیں اور اپنے بچے بھی یہیں پیدا کیے۔ کبھی کبھار باہر سے اپنا خاوند/بوائے فرینڈ بھی اپنے ساتھ لے آتی ہیں کہ اپنے میکہ سے ملوایا جائے اور ہمیں کہتی ہیں اب ان کی سیوا بھی کی جائے۔ کچھ تو اپنے بچے یہیں چھوڑ جائیں گی کہ جیسے مجھے کہہ رہی ہوں بچوں کا زرا خیال رکھنا۔ میں زرا چکر لگا آئوں۔

میں ویسے بھی بے بی سٹنگ بہت اچھی کرتا ہوں۔ گھر سے باہر جانا مجھے بھی مشکل لگتا ہے۔ اماں نے اپنی بہنوں یا چچی ساتھ کبھی شہر جانا ہوتا تو وہ مجھے ہی گھر چھوڑ جاتیں کہ یہ سارا دن گھر رہے گا۔

خیر میں جہاں جائوں اور اس گھر میں بلیاں ہوں تو وہ مجھ سے ملنے ضرور آئیں گی۔ ایک دفعہ اپنی دوست عروج رضا کے گھر گیا تو ان کا ایک بلا ہے جو ان کا بیٹا ہے۔ اس کا نام بادشاہ ہے اور اس کی آکڑ اور نخرہ بھی واقعی بادشاہوں والا ہے۔ بہت پیارا۔

عروج کہنے لگی میرا بیٹا میرے علاوہ کسی پاس نہیں جاتا۔ میری بادشاہ سلامت سے آنکھیں چار ہوئیں تو اتنی دیر میں وہ بادشاہ بلا چھلانگ لگا کر میری گود میں بیٹھ چکا تھا کہ مجھے پیار کرو۔

عروج کا حیرت سے منہ کھلا ہوا تھا کہ یہ تو کسی کے پاس نہیں جاتا۔ بولی رئوف یہ کیا چکر ہے۔

میں نے عروج کو کہا تم نہیں سمجھو گی۔ اپنا بہت کچھ سانجھا ہے۔

خیر میں ملتان آیا ہوا تھا۔ جمشید رضوانی کی ساس صاحبہ کے انتقال کا سنا تھا تو تعزیت کرنے گیا۔ وہیں لان میں ایک خوبصورت سفید بلا دیکھا۔ اندر پہنچ کر جمشید رضوانی سے کہا اسے بلائو میں نے ملنا ہے۔ جمشید بولا یہ بہت شرمیلا ہے۔ اب تمہیں دیکھ کر اندر نہیں آئے۔ یہ اجنبی لوگوں سے نہیں ملتا بلکہ آواز سن کر ہی گھر سے باہر چلا جاتا ہے۔ ان کے جانے بعد یہ گھر آتا ہے۔

میں سمجھا جمشید مذاق کررہا ہے۔

اتنی دیر میں جمشید کی سب سے چھوٹی بیٹی اس خوبصورت بلے کو اٹھا کر اندر لائی۔ میں نے پوچھا یہ اتنا شرمیلا کیوں ہے؟

وہ بولی انکل یہ دراصل ہمارے پاس اس وقت آیا تھا جب کووڈ چل رہا تھا۔ یہ صرف بیس دن کا بچہ تھا۔ وہ کورنٹین کے دن تھے۔ یہ بھی اکیلا اندر کمرے میں رہتا تھا۔ ہم بھی کووڈ کی وجہ سے احتیاط کرتے تھے۔ اب اس کی اتنی عادت پکی ہوچکی ہے ہم گھر والوں کے علاوہ یہ کسی سے نہیں ملتا۔

جمشید مزاجاََ شرمیلا انسان ہے۔ میں نے کہا جمشید سنا تھا کمپنی بندے کو تبدیل کر دیتی ہے۔ اب دیکھ بھی لیا۔

بلا بھلا کب شرمیلا ہوتا ہے۔ بلکہ اپنی حرکتوں اور کمینگیوں کی وجہ سے باگڑ بلا کہلاتا ہے۔ تم نے اس بے چارے کو اپنی کمپنی میں اپنی طرح شرمیلا کر دیا ہے۔

جمشید رضوانی یہ سن کر پھر شرما گیا۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.

Check Also

Personal Growth

By Khateeb Ahmad