Wednesday, 15 January 2025
  1.  Home
  2. Rauf Klasra
  3. Na Milen Ke Bharam Qaim Rahe

Na Milen Ke Bharam Qaim Rahe

نہ ملیں کہ بھرم قائم رہے

ہم انسان بڑے عجیب ہیں۔ مجھے کبھی اپنی سمجھ آئی نہ دوسروں کی۔ کبھی دور تھا جب مجھ سے کوئی ملنا چاہتا تھا تو میں اسے ضرور ملتا۔ بہت عزت احترام دیتا۔ کافی چائے ڈنر لنچ پر بلا لیتا کہ اگلا بندہ اتنا سفر کرکے اسلام آباد آیا ہے۔ اسے کہیں سے نہ لگے اس کو اہمیت نہ ملی یا جو وہ میری عزت کرتا تھا اسے وہ عزت نہیں ملی یا کہیں تکبر یا غرور شامل تھا۔

کئی ایسی شادیوں پر بھی دوردراز علاقوں تک کا سفر کیا جن سے ملاقات تک نہ تھی لیکن ان کا کارڈ اور میسج آیا کہ آپ ضرور آئیں۔ میرا ایک دوست میرے اس مزاج کا مذاق اڑاتا تھا کہ تمہیں کوئی راہ چلتے بیٹے کے ولیمے یا بیٹی رخصتی پر بلا لے تو سینکڑوں میل سفر پر چل پڑتا ہے۔ میرا جواب ہوتا تھا یار اگر اسے میرے جانے سے خوشی ہوسکتی ہے تو میں تکلیف گوارہ کر لیتا ہوں۔

میرا زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ کسی کو انکار کرنا رہا ہے۔ میں انکار نہیں کر پاتا۔ میں نے اپنے اس مزاج کی قیمت بھی کئی دفعہ چکائی ہے۔ میں اس فلسفے پر نہ چل سکا کہ ایک ناں سو سکھ۔ میں ایک ہاں کرکے درجنوں مسائل خریدنے کا شوقین ہوں۔

خیر کل رات فیس بک پر اپنے کسی پرانے مہربان کا اپنے بارے اتفاقاََ ایک نیگٹو کمنٹ پڑھا تو چند برس پہلے ان سے ہونے والی ایک ملاقات یاد آئی۔

ملاقات سے پہلے دو تین دفعہ ان کا میسج آیا تھا۔ وہ شاید بیرون ملک کوئی دکان چلاتے تھے۔ رحیم یار خان سے تعلق تھا۔ اسلام آباد آکر ملنا چاہتے تھے۔ شاید میرے پروگرامز اور کالمز کے مداح تھے۔ ان دنوں مداحوں کو میں اچھا لگتا تھا اور مداح مجھے اچھے لگتے تھے۔ اسلام آباد آئے۔ انہیں لنچ پر شہر کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل پر لے گیا۔ پہلی ملاقات تھی۔

پھر کبھی کبھار ان کا واٹس ایپ پر میسج آجاتا۔ پھر ان کے دوسروں کی وال پرکمنٹس پڑھتا تو مجھے لگتا وہ اپنے سیاسی ویوز بارے کچھ شدت پسند ہیں۔ مجھے ان پر نہیں خود پر حیرانی ہوئی کہ میرے ایسے مداح کو میری تحریروں میں کیا پسند آیا ہوگا۔ کہیں نہ کہیں تو میرے اندر بھی شاید لاشعوری طور پر شدت پسندی ہے جو اس مہربان کو پسند ہے ورنہ میرے علاوہ تو وہ ہر ایک سینگوں پر اٹھائے رکھتے ہیں؟

مجھے انتظار تھا کہ میری باری کب لگتی ہے کہ بہت سارے میرے پرانے مداح آج کل میرے سب سے بڑے ناقد ہیں اس لیے میں اب خود کو نئے مداحین سے دور رکھتا ہوں کہ مجھے علم ہے کل جب یہ میرے ناقد بنیں گے تو تکلیف کم ہوگی۔ ہر مداح آپ کو اپنا قیدی بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔ ایک عاشق اور معشوق جیسا تعلق کہ بس میرا ہو کر رہے۔ بس وہی سوچے اور لکھے یا بولے جو محبوب چاہتا ہے۔

کبھی مجھے بڑا اچھا لگتا تھا لیکن اب کوئی کہہ دے کہ آپ کی تحریر یا ٹی وی شو کا مداح ہوں تو یقین کریں ڈر لگتا ہے۔

خیر مجھے انتظار تھا وہ کب مجھے بھی سینگوں پر اٹھاتے ہیں۔ آخرکار کل رات میرا انتظار ختم ہوا اور میری نظر ان کے ایک جگہ کمنٹ پر پڑھی۔

سوچتا رہا کہ اس دنیا میں کچھ بھی مستقل نہیں ہے، ہماری رائے، ہمارے مداح، ہمارے ہیروز اور ہماری پسند ناپسند۔ ہم کیسے ساری عمر کسی ایک بندے کو اپنے خیالات سے خوش رکھ سکتے ہیں۔ اگر ہم رکھ رہے ہیں تو ہم بہت بڑے ایکٹر ہیں۔ ڈرامہ ہیں۔ فراڈیے ہیں۔

اس کے کمنٹ کو پڑھ کر برسوں پہلے کی وہ دوپہر یاد آئی جب اس رحیم یار خان کے مہربان کو پوری عزت اور مکمل احترام دیا تھا۔

یہ لوگ کسی اجنبی لیڈر پر جان نچھاور کرنے کو تیار ہیں جو انہیں جانتا، جس سے کبھی ہاتھ تک نہیں ملایا اور کبھی ان سے ملائے گا بھی نہیں لیکن جس بندے نے پورا وقت نکال کر میزبانی کی ہو اس بارے میں کوئی بری بات کہتے انہیں جھجک نہیں ہوگی۔ کوئی مروت کچھ نہیں۔

خود پر غصہ آیا کہ کیسے کیسے لوگوں کے لیے وقت نکالتا رہا۔ میزبانی کرتا رہا۔ وقت ضائع کیا اپنا بھی اور ان کا بھی۔

اب بھی کچھ مہربانوں کے میسجز آتے ہیں کہ آپ سے ملنا ہے۔ مجھے علم ہے اکثر مایوس ہوں گے اور ان کا بھرم ٹوٹے گا لہذا اب دور رہتا ہوں۔

کبھی سمجھ نہ آئی کہ لوگوں سے ملیں اور انہیں احترام دیں تو بھی کچھ عرصے بعد انہوں نے آپ کے بارے نیگٹو رائے رکھنی ہے کیونکہ آپ ان کے خیالات کا قیدی بن کر زندگی نہیں گزارتے۔

اب احساس ہوا ہے کہ بہتر ہے نہ ملا جائے۔ ایک فاصلہ رکھا جائے۔ دونوں کا بھرم رہ جاتا ہے۔ وہ وقتی مداح آپ کو ابھی بھی شک کا فائدہ دیتا ہے کہ ملاقات نہیں ہوسکی لیکن جس سے ملاقات ہوگئی وہ برسوں تک انتظار کرے گا کب اسے آپ کے اندر ایک آدھ "خامی" ملے اور وہ حملہ آور ہو۔ اس لیے میں اکثر کہتا ہوں جو لوگ آپ کو اچھے لگتے ہیں ان سے نہ ملا کریں۔ میں خود بھی ان سے نہیں ملتا جو مجھے اچھے لگتے ہیں کہ ہم دونوں کا بھرم قائم رہے۔ اپنا رومانس نہ مرنے دیا کریں۔ فاصلے محبتوں اور اچھی امیدوں کو زندہ رکھتے ہیں۔ ملاقاتیں، محبتیں، رفاقتیں اور قربت سب رومانس کھا جاتی ہیں۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.

Check Also

Khutbah e Ghadir

By Muhammad Ali Ahmar