Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Rauf Klasra
  3. Mazay Te Mahiya Hun Aan Ge

Mazay Te Mahiya Hun Aan Ge

مزے تے ماہیا ہن آن گے

شفیق لغاری کے چہرے پر یہ مسکراہٹ نہیں بلکہ embarassment ہے۔ اس کے پیچھے ایک مکمل کہانی ہے۔

شفیق لغاری ہر جمعرات کو میرے دفتر رات گیارہ بجے ضرور چکر لگاتا ہے۔ میرا شو ختم ہوتا ہے تو آگے شفیق لغاری موجود ہوتا ہے۔ اکثر بھول جاتا ہوں کہ اس نے آنا ہے۔ بارش ہو آندھی یا طوفان لغاری گیارہ بجے رات کو ضرور آئے گا۔ کئی دفعہ تو میں تھوڑا سا تنگ بھی پڑتا ہوں کہ کسی کو گیارہ بجے بعد کا وقت دے چکا ہوتا ہوں اور پرانے تعلقات اور مروت کا تقاضا ہے لہذا لغاری کو چٹا جواب بھی نہیں دیا جاسکتا۔ لیہ کالج میں 1987سے تعلق ہے اور پھر 1991 میں یونیورسٹی دنوں سے دوستی ہے اور پھر 2014/2019 تک میرے ساتھ ٹی وی شو میں میری ٹیم کا حصہ رہا۔

لغاری شاید ان چند دو تین میرے قریبی لوگوں رانا اشرف، زاہد بلوچ۔ عمران مگھرانہ کے بعد ایسا انسان ہے جس نے مجھ سے شکایات ہونے کے باوجود کبھی میرے خلاف نہ کچھ لکھا نہ بولا۔ بلکہ جب ناراض تھا تو انہی دنوں میرے خلاف سوشل میڈیا پر میرے ہی اپنوں نے مہم شروع کی تو اس نے میرے حق میں لمبا چوڑا لکھا سہی جس پر میں شرمندہ ہوا اور فیصلہ کیا اب لغاری کو شکایت کا موقع نہیں دینا۔

خیر وہ مجھے ہمیشہ کہتا ہے تم فارغ ہو تو چل کر کہیں بیٹھتے ہیں ورنہ بس مل لیا۔ میں اب چلتا ہوں اور وہ میلوں پیدل چلتا ہے۔

میں اور وہ اکثر گیارہ بجے کہیں کیفے پر کافی پیتے ہیں۔ وہ پزا کھائے گا اور چائے۔

میں اکثر رات گئے اسے گھر پنڈی ڈراپ کر آتا ہوں۔ اگرچہ وہ خود بائیک منگوا کر جانا پسند کرتا ہے لیکن میں اصرار کرکے چھوڑ آئوں گا۔ کبھی کبھار اگر میں بہت پھنس جائوں تو اسے بلیو ایریا فیصل چوک اتار دیتا ہوں اور وہ بائیکا لے کر چلا جاتا ہے۔ کوئی شکایت کوئی گلہ کچھ نہیں۔ یونیورسٹی دنوں میں لغاری کی جیب نوٹوں سے بھری ہوتی تھی اور کبھی کبھار ہم دوستوں کی "دوستانہ عزت افزائی" کرکے وہی خرچ کرتا تھا۔ وہی اس کے دن یاد آتے ہیں۔ اب وہ جب مجھے ملنے آتا ہے تو کچھ نہ کچھ میرے لیے ساتھ لے آتا ہے۔

آج رات آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک فینسی ڈبہ تھا۔ بڑے فخر سے میرے سامنے رکھا اور بولا بڑے استاد بنے پھرتے ہو۔ زرا بتائو میں کیا لایا ہوں۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے کہتا ہے تم دس چیزوں کے نام بتا سکتے ہو۔ لیکن مجھے یقین ہے تم پھر بھی نہیں بوجھ سکو گے۔

لغاری کی اس موقع پر ایک مخصوص شکل بن جاتی ہوتی ہے جب وہ کسی کو چیلنج دے۔ کہنے لگا آج یہی سوچ کر لایا ہوں کہ تمہاری شکل دیکھوں گا جب تم ایک کے بعد ایک غلط اندازہ لگائو گے اور میں قہقہے لگائوں گا۔ کہنے لگا اتنی دیر سے بیٹھا یہی سوچ کر اکیلا انجوائے کررہا ہوں اور ہنس رہا ہوں۔

میں نے ایک نظر ڈبے کو دیکھا۔ لغاری پھر بولا استاد آج تو نہیں بوجھ سکتا۔ مزے تے ماہیا ہن آن گے۔

میں نے کچھ دیر سوچا اور کہا لغاری اس ڈبے میں جلبیاں ہیں۔ تم میرے لیے جلبیاں لائے ہو۔

میرا جواب سن کر جو لغاری کا حشر ہوا اس کو میں اب تک انجوائے کررہا ہوں۔ شرمندہ ہو کر بولا استاد بندہ کچھ شرم کر لیتا ہے۔ کچھ ڈرامہ کرکے اگلے کا دل رکھ لیتا ہے۔ تم پکے بے مروت ہو۔ سارا سپنس اور تھرل ہی ختم کر دیا۔ سارا دن یہی سوچتا رہا کہ کیا چکر چلائوں اور تمہیں ڈاج کرانے کے لیے اس فینسی ڈبے میں جلیبیاں لایا کہ ادھر تمہارا شک بھی نہ جائے۔

تم نے کیسے درست اندازہ لگایا اور وہ بھی پہلی کال پر؟

میں نے کہا لغاری اب ایک بات کا تم جواب دو۔ ہمارا چار دہائیوں سے تعلق ہے۔ تم مجھے زیادہ جانتے ہو یا میں تمہیں زیادہ جانتا ہوں؟

میں نے کہا تم جلیباں لائے کیونکہ تمہیں علم ہے مجھے پسند ہیں اور مجھے علم تھا تمہیں میری پسند کا علم ہے لہذا تم جلیبیاں ہی لائے ہو گے۔

اب کافی دیر سے وہ پھیکا سا منہ بنا کر بیٹھا ہوا ہے کہ موصوف کی پورے دن کی سپسنس اور تھرل کی منصوبہ بندی خاک میں مل گئی۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.

Check Also

Christmas

By Javed Chaudhry