کھونے کا ڈر

کسی دوست نے کہا مجھے ایک چیز کا بہت ڈر لگتا ہے کہ میرے پیاروں کو کچھ نہ ہو۔ مجھے ان سب کو کھونے سے بہت ڈر لگتا ہے۔ میں سوچتا ہوں ان سے پہلے میں اس دنیا سے جائوں تاکہ مجھے ان کی موت کی صورت میں اس دکھ اور درد سے نہ گزرنا پڑے جو میرے لیے بہت تکلیف دہ ہوگی۔
یہ ٹراما اکثر ہم سب کو کسی نہ کسی لحمے ضرور ہوتا ہے۔ کچھ دن پہلے میں نے ایک ویڈیو دیکھی جس میں ایک گورے باپ نے اپنی دس بارہ سالہ بیٹی کو ساتھ بٹھایا اور ایک ایپ آن کر دیا۔ اس ایپ میں آپ کی بڑھتی عمر کے مطابق آپ کا چہرہ بدلتا جاتا ہے۔
باپ نے 2025 کے سال سے شروع کیا جب وہ نوجوان ہے۔ پھر اس نے بٹن دبایا تو سال بڑھنا شروع ہوگئے، 2040/50 کے بعد کچھ شکل بدلنی شروع ہوئی۔
اب وہ بیٹی بھی باپ کی بدلتی شکل اس ایپ میں دیکھ رہی تھی۔ پہلے تو اسے لگا محض کھیل ہے جو اس کا باپ اسے دکھا رہا ہے۔
اچانک عمر کا کلاک 2075 سال پر رک گیا۔ مطلب اتنی ہی عمر ہوگی اور وہ بہت بوڑھا لگ رہا تھا۔
بیٹی کو پہلے تو کچھ خاص محسوس نہ ہوا یا اس نے غور نہیں کیا تھا۔ اچانک اسے لگا کہ اس کا باپ تو بوڑھا ہوگیا تھا۔ اس نے بے ساختہ اپنے باپ کے گلے میں بازو ڈالے اور شدت سے رونے لگ گئی۔ اسے لگا ایک دن وہ اس باپ کو کھو دے گی۔ اس بچی نے جس طرح کا ایموشنل ری ایکشن دیا اور باپ گلے لگ کر زاروقطار روئی وہ منظر دیکھ کر کسی کا دل بھی پسیج جائے۔
اس طرح آپ میں سے اکثر نے وہ کلپ دیکھا ہوگا جس میں میرے پسندیدہ ایکٹرز میں سے ایک کینو ریو سے ایک مزاحیہ ٹی وی شو میں پوچھا جاتا ہے کہ آپ کا خیال ہے جب ہم مرتے ہیں تو پھر کیا ہوتا ہے۔ اس مزاحیہ پروگرام میں کینو ریو نے دکھ بھری آواز میں سنجیدہ جواب دیا کہ جو ہم سے محبت کرتے ہیں وہ ہمیں مس کریں گے۔
اس سے بہتر جواب آج تک میں نے نہیں سنا کہ بعض دفعہ انسان کو مرنے سے زیادہ تکلیف یہ خیال دیتا ہے کہ اس کے پیارے جو اس سے محبت کرتے ہیں وہ انہیں بہت مس کریں گے۔۔ وہ دکھی ہوں گے۔ وہ آنسو بہائیں گے۔