کروڑ کا کبریا خان
آج قائداعظم یونیورسٹی کنٹین/ہٹس پر گیا اور جو بھیانک حالت وہاں واش رومز/ٹوائلٹ کی دیکھی تو مجھے 1989/91 میں اپنا لیہ کالج کا دوست اور ہوسٹل کا روم میٹ کبریا خان سرگانی یاد آیا۔
کبریا خان کا تعارف میرے ایک اور کلاس فیلو اور روم میٹ ذوالفقار سرگانی کے طفیل ہوا تھا۔ وہ دونوں کروڑ سے تعلق رکھتے تھے۔
ذوالفقار اور میں پہلے سے روم میٹ تھے۔ ایک دن اس نے کہا وہ ایک نوجوان کو لانا چاہتا ہے۔ چوتھے روم میٹ کی اجازت ہم باقی روم میٹس کی اجازت سے مشروط تھی۔ فتح پور کا ہمارا دوست رفیق بھی روم میٹ تھا۔ میں نے فارم پر دستخط کر دیے۔ رفیق نے بھی کر دیے۔ یوں کبریا خان ہمارا روم میٹ بنا۔
پہلے دن ہی کبریا خان سے میری دوستی لگ گئی اور کیاخوب لگی (بعد میں پتہ چلا وہ Libra ہے لہذا دوستی لگنی ہی تھی)۔
کبریا کے اندر بہت مزاح تھا۔ ہر وقت گپیں قہقے اور مذاق جگتیں۔ کبریا خان قہقہ لگاتا تو یوں لگتا پورا ہوسٹل قہہقوں سے گونج رہا ہے۔ کبریا خاموش ہوتا تو لگتا پورا جہاں خاموش ہوگیا ہے۔ کبریا کی شخصیت بہت میٹھی اور پیاری۔
کبریا خان اکثر رات کو سونے سے پہلے کنگھی کرکے بال سنوارتا تھا اور پورے اہتمام ساتھ تیار ہو کر سوتا۔ اس کا بیڈ میرے قریب تھا۔ ایک رات پوچھا کبریا خان اس کنگھی شیشے کے پیچھے کیا راز چھپا ہوا ہے جو ہمیں نہیں معلوم۔ بڑا سنجیدہ ہو کر بولا مہر صاحب (وہ مجھے مہر صاحب کہتاتھا) قسمت کا کیا پتہ کوئی رات کو کب خواب میں ہی ملنے آجائے۔ بندہ کم از کم شکل تو اچھی ساتھ ملے، اگلی الجھے بال دیکھ کر بھاگ ہی نہ جائے۔
کبریا سے میں نے کچھ اچھی چیزیں سیکھیں۔ وہ ایک اچھے زمیندار خاندان سے تعلق رکھتا تھا لہذا اس کے اندر مروت، ظرف اور روایتی شان و شوکت بہت تھی۔ ہر ایک سے محبت پیار سے ملنا اور گپیں مارنا۔ ہم چاروں روم میٹس میں سے سنجیدہ پڑھائی صرف ذوالفقار سرگانی کرتا تھا۔ وہ لائٹ جلا کر دیر تک پڑھتا اور ہم گپیں مارتے تو وہ تنگ آکر ہاتھ جوڑتا یا پھر کامن روم جا کر پڑھتا لیکن میری اور کبریا کی بکواسیات نہ رکتیں۔
کبریا خان کی جس چیز نے مجھے پہلے دن متاثر کیا تھا وہ کچھ اور تھی۔ کبریا خان ہوسٹل شفٹ ہوا تو اسے اس کے بھائی چھوڑ گئے۔
اگلی صبح میں اٹھ کر تیار ہونے کے لیے واش روم گیا۔ مجھ سے پہلے کبریا خان گیا تھا۔ وہ نہا دھو شیو کرکے لوٹا تھا۔ جب میں واش روم گیا تو حیران ہوا کیونکہ وہ چمک رہا تھا۔ سب کچھ صاف ستھرا۔ میں کچھ حیران ہوا کہ صبح صبح کون واش روم / بیسن صاف کر گیا تھا۔ پہلے تو کبھی ایسی صفائی نہ ہوتی تھی۔
واپس آکر یہ خبر روم میٹس کے ساتھ شییر کی تو کبریا کچھ شرما کر بولا میں گیا تو سب کچھ گندہ لگ رہا تھا تو میں نے وہیں کھڑے کھڑے واش روم بیس وغیرہ صاف کر دیا۔
ہم سب نے حیرانی سے اسے دیکھا تو وہ کچھ پریشان ہوا کہ ایسا کیا غلط کر دیا تھا۔ کبریا خان جب بھی واش روم جاتا تو وہ ہمیشہ واش بیسن واش روم ضرور صاف کرکے آتا۔
میں نے بھی یہی عادت اپنانے کی کوشش کی اور جب کہیں پبلک پیلس پر واش روم گندے دیکھے تو پانی سے دھو دیا۔
آج جب قائداعظم یونیورسٹی ہٹس /کینٹن کے گندے واش روم دیکھے تو فورا کبریا خان یاد آیا۔ ادھر ادھر دیکھا کہ شاید کچھ سامان پڑا ہو تو میں اسے صاف کر دوں۔ لیکن نہ وہاں کوئی سامان تھا نہ ہی پانی۔ مایوس ہو کر لوٹا آیا۔ بعض دوستوں کی اچھی عادتیں آپ کو 33 سال بعد بھی یاد رہتی ہیں۔ شاید اس لیے کہا جاتا ہے کہ انسان کی کمپنی آپ پر بڑا اثر رکھتی ہے۔ یہ کبریا خان کی کمپنی یا ایکٹ کا اثر تھا کہ میں نے یونیورسٹی میں گندے واش روم صاف کرنے کا ارادہ کیا۔
کبریا خان کی اس معصوم ٹائپ فوٹو پر نہ جائیں۔ اس فوٹو میں وہ جتنا سنجیدہ لگ رہا ہے اتنا ہی گپ شپ، مزاح اور زندگی سے بھرپور ہے۔ میں کبریا کے بلند و اہنگ قہقے مس کرتا ہوں اور کبھی کبھی اس کا شرمانا۔
Kibria Khan. I miss you buddy. I love you.
کبھی کبھی یونہی ہی خیال آتا ہے کیا کبریا خان اب بھی رات کو سونے سے پہلے کنگھی شیشہ کرکے سوتا ہوگا اسی شب شباب اور پورے اہتمام کے ساتھ؟