کابلی والا اور بچپن کی یادیں
گیا تو میں ATM سے کچھ پیسے نکلوانے گیا تھا لیکن پھر اس نوجوان پر نظر پڑی جس نے سامنے ڈرائی فروٹ رکھے ہوئے تھے۔ میں نے اسے مسکرا کر دیکھا تو مجھے بھی اس نے جوابی مسکراہٹ دی۔ مسکراہٹ چیز ہی ایسی ہے کہ چند سکینڈز میں ہر دیوار گرا دیتی ہے۔
میں نے نام پوچھا تو بولا عارف اللہ خان۔
پوچھا آپ کہاں سے ہو۔ عارف بولا میں افغانستان سے ہوں۔
میں نے کہا افغانستان کہاں سے۔
بولا قندھار سے ہوں۔
وہ چاہتا تو وہ کہہ سکتا تھا کہ پشتون ہوں، باجوڑ یا وزیرستان سے ہوں تو مجھے ہلکا سا شک بھی نہ ہوتا کہ وہ افغان ہے۔ اس نے جس محبت اور فخر ساتھ افغانستان اور قندھار کہا اور اس کی آنکھوں میں چمک ابھری، اس نے مجھے بھی متاثر کیا کہ اپنے وطن سے پیار کس بلا کا نام ہے۔
یہ نوجوان اور بوڑھے کہاں سے چلتے ہیں حق حلال کی روزی کمانے۔ اجنبی دیس میں گائوں گائوں پھرتے ہیں۔ خطرات مول لیتے ہیں، محنت کرتے ہیں۔ اپنے گھر سے دور، ماں باپ بہن بھائیوں سے دور اجنبی علاقوں اور پردیس میں کام کرتے ہیں لیکن اپنی مسکراہٹ نہیں بھولتے۔
پتہ نہیں کیوں مجھے کتابیں بیچنے والوں کے بعد ڈرائی فروٹ بیچنے والے پٹھان/افغان اچھے لگتے ہیں۔
اس کی دو نفسیاتی یا نسٹلجک وجوہات ہیں۔ ایک تو وہ بوڑھا پٹھان جو ہمارے گائوں میں ڈرائی فروٹ بیچنے آتا تھا اور دوسرا رابندرناتھ ٹیگور کا افسانہ کابلی والا۔
وہ بوڑھا پٹھان سردیوں میں پتہ نہیں کہاں سے پیدل ہمارے گائوں آتا تھا۔ میں اس وقت ابھی بچہ تھا۔ اس نے کمر پر ایک چارد میں کچھ بھاری سامان باندھا ہوتا تھا جسے وہ اٹھا کر چل رہا ہوتا۔ بڑی بڑی سفید داڑھی، اتنی ہی بڑی مونچھیں اور ٹوٹی پھوٹی اردو۔ وہ ہمارے گائوں ہر سال برسوں سے آرہا تھا۔ (سلیم بھائی کو ان کا نام شاید یاد ہوگا)۔ اس نے ہمارے گائوں میں ڈرائی فروٹ بیچنا اور شام ہو جاتی تو وہیں گائوں میں رک جاتا یا پھر کہیں آگے نکل جاتا۔ ایک مضبوط اعصاب کا الگ سا انسان۔ چہرے پر مستقل سنجیدگی رہتی۔ میں نے شاید ہی اسے کبھی ہنستے مسکراتے دیکھا ہو۔
ہمارے گھر اس بوڑھے پٹھان کی بہت عزت کی جاتی تھی۔ اس بوڑھے لیکن محنت کش پٹھان کو اچھا کھانا پینا دیا جاتا۔ ہم سب ان کا احترام کرتے۔
اماں ان سے ڈرائی فروٹ خریدتی، نانی خریدتی، ہماری چچی خریدتی اور گائوں کے دیگر لوگ بھی۔ ایک خوبصورت پیارا سمارٹ چمکتا سیٹل کا ترازو اس کے پاس ہوتا تھا اور ساتھ میں وزن کرنے والے اتنے ہی پیارے باٹ۔
مجھے تو اس بوڑھے پٹھان کا سمارٹ اسٹیل کا چھوٹا سا ترازو بہت attract کرتا تھا۔
وہ اپنی جھکی ہوئی کمر سے چادر اتارتا اور اسے صاف زمین پر رکھ کر اس میں سے لپٹے مختلف ڈرائی فروٹ تول کر دے دیتا۔ بعض دفعہ زیادہ فروٹ لیا جاتا تو وہ ادھار کر جاتا۔ اگلے سال پچھلا ادھار واپس اور نیا فروٹ لے لیا جاتا تھا۔ اماں سردیوں کی رات کو چولہے پر ہم سب کو اخروٹ توڑ کر دیتی یا ہم دانتوں سے ان کے ساتھ لڑائی لڑتے۔ مجھے دراخ (کشمش) بہت پسند تھی اور اب بھی ہے۔
میں اس بوڑھے پٹھان کو برسوں ہر سردی میں دیکھتا تھا اور پھر ایک سال وہ بوڑھا پٹھان دوبارہ نہ آیا اور پھر کبھی نہ آیا۔۔
اس بوڑھے پٹھان کی یاد باقی تھی کہ پچھلے ماہ رات گئے اپنے چھوٹے بیٹے مہد کو کہا مجھے ٹیگور کا افسانہ کابلی والا سنائو۔ وہ شارٹ فلمیں بناتا ہے۔
اسے کہا کابلی والا پر ایک شارٹ فلم بنائو۔ اس کو پروڈیوس میں کروں گا۔ تم اس کو ڈائریکٹ کرو۔ وہ اونچی آواز میں اردو ترجمے والا افسانہ پڑھتا رہا۔ میں ایک عجیب سی اداسی کے درمیان میں خاموش سنتا رہا۔
مہد کو لگا شاید میری آنکھ سے ایک آدھ آنسو ٹپکا ہے۔ وہ پڑھتے پڑھتے رکا اور اس نے کچھ حیرانی سے مجھے دیکھا اور پھر بغیر کچھ کہے کابلی والا پڑھتا رہا۔
آج اس سینکڑوں میل کا پر خطر سفر کرکے پردیس میں قندھار کے نوجوان کو دیکھا تو برسوں پہلے ہمارے گائوں ڈرائی فروٹ بیچنے کے لیے طویل سفر کرکے آنے والابوڑھا پٹھان اور ٹیگور کا کابلی والا یاد آئے۔ ایک لحمے کے لیے تو مجھے لگا وہ بوڑھا پٹھان اور رابندرناتھ ٹیگور کا کابلی والا ایک ساتھ میرے سامنے جوان ہو کر آن کھڑے ہوئے تھے۔