Monday, 10 February 2025
  1.  Home
  2. Rauf Klasra
  3. Joote Polish Karne Waale Nojawan

Joote Polish Karne Waale Nojawan

جوتے پالش کرنے والے نوجوان

ہفتے میں دو تین دفعہ مجھے اپنے پروفیشنل جاب کے لیے صبح سویرے اٹھنا پڑتا ہے۔ مجھے جلدی اٹھنے سے چڑ رہی ہے اور اس وجہ سے سرکاری نوکری کا کبھی زندگی میں سوچا تک نہ تھا حالانکہ یونیورسٹی بعد ملتان میں چند برس بیروزگار رہا۔ مشکلات دیکھیں۔ سب دوست کالج میں لیکچرز تک لگ گئے لیکن میں ضد پر قائم رہا کہ نہ بھائی صبح کون اٹھ کر کالج پڑھانے جائے۔ زندگی میں کام وہ کریں گے جس میں صبح نہ اٹھنا پڑے۔

لیکن زندگی میں دو کام ایسے تھے جو صبح صبح اٹھ کر بڑی محبت سے کیے ہیں۔ ان کی تفصیل پھر کبھی سہی۔

صبح اٹھ جائوں تو میں کافی بینز کیفے پر کافی پینے چلا جاتا ہوں۔ اکیلے بیٹھ کر میوزک ایپ پر رفیع مکیش لتا جی کے گانے سنتے ہوئے اپنی پسند کی کافی کا بھی اپنا مزہ ہے۔

خیر اکثر وہاں جوتے پالش کرنے والے نوجوان پھر رہے ہوتے ہیں۔ میرے جوتے گھر سے پالش بھی ہوں تو بھی ان سے کرا لیتا ہوں کہ چلیں ان کی مزدوری بن جائے گی۔ صبح سویرے یہ ناشتہ ہی کر لیں گے یا ان کا میٹر ڈائون ہو جائے گا۔ صبح سویرے انکار کرنے کا مطلب ہے ان کا دن شاید برا گزرے۔

کل پرسوں ایف سکس کی کافی بینر پر بیٹھا تھا۔ ایک نوجوان لڑکا آیا اور کہا پالش کرانی ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ جوتے پالش کرنے والے آپ کی شکل نہیں بلکہ پائوں دیکھیں گے کہ جوتے صاف ہیں یا نہیں وہ پھر ہی فیصلہ کرکے آپ کا چہرہ دیکھے گا۔

مجھے نعیم بھائی کی بات یاد آتی ہے جو آنکھوں کے سرجن تھے۔ وہ کہا کرتے تھے ہماری بھی ایک عادت سی ہو جاتی ہے کہ جو بندہ ملتا ہے ہم پہلے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہیں آیا اس کی آنکھوں کو کوئی مسلہ تو نہیں ہے۔

اس طرح جوتے پالش کرنے والا بھی آپ کی شکل کی بجائے جوتوں پر نظر ڈالتا ہے اور جوتوں کی حالت دیکھ کر ہی وہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس نے پالش کرنے کا پوچھنا ہے یا نہیں۔

خیر اس نوجوان کے کہنے پر میں نے جوتے اتار دیے۔ وہ کچھ دیر بعد بڑی محنت سے جوتے پالش کر لایا۔ میں نے جیب سے پیسے نکال کر اسے دیے۔ وہ بقیہ نکالنے لگا۔ میں نے کہا رکو زرا۔ اپنے جوتے اتارو اور جا کر انہیں میرے پیسوں سے پالش کرکے لائو۔ وہ کچھ حیران ہوا کہ وہ اپنے جوتے پالش کیوں کرے؟ میں نے کہا پیسے میں نے دینے ہیں۔ آپ کرکے لائو۔

وہ حیران نظروں سے مجھے دیکھتا چلا گیا۔ کچھ دیر بعد وہ اپنے جوتے پالش کرکے لے آیا جو اب چمک رہے تھے اور پہن کر اسے اچھے لگ رہے تھے۔

اسے اپنے ساتھ بٹھایا اور سمجھایا۔ بیٹا جو بندہ دوسروں کو کوئی بھی سروس دے رہا ہے اور وہ سروس دیکھنے والے کو attractive نہیں لگ رہی تو وہ گاہک سروس نہیں لے گا۔ اگر حجام کے اپنے بال بکھرے اور الجھے ہوئے ہوں گے اور اپنی شیو بڑھی ہوئی ہوگی تو اس سے کوئی بھی اپنے بال سنوارنے نہیں جائے گا۔

میں نے کہا آپ کے اپنے جوتے گندے تھے تو مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ چمکتے ہوئے جوتوں کی کیا شان ہوتی ہے؟ تمہارے جوتے چمک رہے ہوں گے تو مجھے بھی لگے گا یار ایک تو یہ بندہ کام اچھا کرتا ہے اور اوپر سے صاف ستھرا جوتا پالش بعد کتنا اچھا اور انسان کتنا بارعب لگتا ہے۔ اب زرا دیکھو تمہیں چمکے ہوئے جوتے دیکھ کر کیسا لگ رہا ہے؟

اس نے جھک کر اپنے جوتے دیکھے تو اس کی آنکھوں میں چمک اور ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھری۔ میں نے کہا صبح سویرے کام پر نکلنے سے پہلے پہلا جوتا جو تم نے پالش کرنا ہے وہ اپنا جوتا ہے۔ تمہارے گاہک بڑھ جائیں گے۔ زیادہ پیسے کمائو گے اور تمہیں اپنا آپ بھی اچھا لگے گا اور تمہارے گاہک انکار نہیں کر پائیں گے۔ جیسے تم دوسروں کے جوتے دیکھ کر فیصلہ کرتے ہو کہ اس سے پالش کرانے کا پوچھنا ہے یا نہیں اس طرح گاہک نے بھی تمہارے جوتے دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے کہ اس نوجوان سے اپنے جوتے پالش کرانے ہیں یا نہیں۔

جب وہ اٹھ کر گیا تو میں نے محسوس کیا وہ چلتے ہوئے اپنے چمکتے جوتوں کو دیکھ رہا تھا۔ اسے سب کچھ عجیب لگ رہا تھا۔ شاید اسے اپنا آپ اچھا لگ رہا تھا۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.

Check Also

Qazafi Stadium Ki Iftitahi Taqreeb

By Muhammad Irfan Nadeem