جناب علی شیخ
یہ جناب علی شیخ ہیں۔ ہمارے ملتانی دوست۔ 1993 میں جمشید رضوانی کی وجہ سے جونئے دوست بنے ان میں علی شیخ بھی شامل تھے۔ میری ہمیشہ دوستوں کے والدین سے زیادہ دوستی رہی چاہے وہ پارس کے والد باقر شاہ صاحب ہوں، سعود نیاز کے والد چوہدری نیاز یا ذوالکفل بخاری کے والد وکیل بخاری یا پھر علی شیخ کے والد شیخ احمد ہوں۔ علی شیخ کے والد سخت ڈسپلن مزاج کے بندے تھے۔ علی کے دوستوں پر کم ہی ان کی نظر کرم پڑتی تھی لیکن پتہ نہیں میرے ساتھ وہ ہمیشہ اچھی طرح محبت سے پیش آتے جس پر خود علی کو بھی حیرانی ہوتی تھی کہ میرے دوستوں میں تم واحد ہو جسے وہ اہمیت دیتے ہیں۔ باقی کو تو دیکھ لیں ان کا موڈ خراب ہو جاتا ہے۔
خیر بات ہورہی تھی علی شیخ کی۔ ملتان میں بہت سارے دوستوں نے برے وقت میں میرا خیال رکھا۔ علی شیخ بھی ان دوستوں میں شامل ہے جس نے برسوں تک ملتان میں پیار دیا۔ میرا خیال رکھا۔ اس کی موٹر بائیک کئی دفعہ مانگی کہ کچھ حسین "ایڈونچر" کرنے ہوتے تھے۔
کووڈ کے دنوں میں علی کی بڑی بیٹی کی شادی تھی۔ علی کا فون آیا۔ چھوٹا بیٹا مہد ضد کر گیا کہ بابا نہ جائیں۔ دو ہزار اکیس کی بات ہے۔ کووڈ کا خوف سر پر تھا۔ وہ مجھے دیر تک قائل کرتا رہا تھا۔ میں چپ چاپ اسے دیر تک سنتا رہا کہ ایک بیٹا باپ کےلیے کتنا پریشان ہے۔ پھر میں نے اسے دیر تک علی بارے بتایا کہ تمہارے پیدا ہونے سے برسوں پہلے ملتان میں علی جیسے دوستوں نے تمہارے باپ کا کتنا خیال رکھا تھا۔ انہیں مجھ سے اس وقت کوئی لالچ تمنا نہیں تھی۔
وہ چپ چاپ سنتا رہا اور پھر بول پڑا نہیں آپ کو جانا چاہئے۔
آج علی کے اکلوتے بیٹے کی شادی تھی۔ علی نے دو ماہ پہلے کہا تھا کہ تم نے نو دس نومبر کو ملتان آنا ہے۔ ڈیٹ لاک کر لو۔ خیر اسلام آباد سےچلا، لاہور ایک شادی اٹینڈ کی اور کل رات ہی خطرناک دھند میں ملتان پہنچا۔
علی کے پیارے بیٹے کو دولہا بنے دیکھا تو دل خوش ہوا۔ اس نوجوان کے کان میں سرگوشی کی۔ علی سن رہا تھا۔
میں نے کہا علی میں برسوں پہلے تمہیں ملنے ملتان آیا تھا تو یہ تمہارا بیٹا بہت چھوٹا تھا۔ شاید پانچ چھ سال کا ہوگا۔
یہ اچانک تمہارے دفتر آیا۔ میں نے اسے بلایا اور بھاگ کر میری طرف آیا اور ل جس محبت سے میری گردن میں اپنی بانہیں ڈال کر مجھے گلے لگا کر ملا اور کافی دیر تک گلے لگائے رکھا وہ آج تک نہیں بھولا۔ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی تھی کہ چھوٹا سا بچہ پہلی دفعہ مجھے مل رہا تھا اور اتنے پیار سے مجھے کافی دیر گلے لگائے رکھا کہ جیسے وہ برسوں سے میرا دوست ہو۔
آج وہی بچہ دولہا بنا ہوا تھا۔ میں نے اسے کہا میں آج تمہاری شادی میں علی شیخ کی وجہ سے نہیں آیا۔ میں آپ کے اس کیوٹ اور معصوم hug کی وجہ سے آیا ہوں جس کا لمس برسوں بعد آج تک محسوس کرتا ہوں۔