Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Rauf Klasra
  3. Gumnam Heros

Gumnam Heros

گمنام ہیروز

کل عجیب سا اتفاق ہوا۔ ایک نستبا دراز قد پیاری خوبصورت لڑکی میرے سامنے رکی۔ مسکرا کر بولی میں زینب فرید ہوں۔ آپ کے بیٹے احمد کی کلاس فیلو۔ میں اس وقت بیٹھا ہوا تھا۔ احتراما اٹھ کھڑا ہوا۔ زینب کو دیکھا اور سوچا بچے کتنی جلدی بڑے ہوجاتے ہیں۔

برسوں گزر گئے۔ ایک دن چھوٹے بیٹے مہد نے سکول واپسی پر کہا بابا ہمارا سکول میں گینگ ہے۔ کل ایک بڑے بچے نے ہمارے ایک دوست کو مارا تھا۔ آج ہم چار دوستوں نے مل کر اس کو مارا ہے۔ میں نے صدمے اور حیرت اپنے بیٹے کو دیکھا جو ابھی تیسری جماعت میں تھا۔

اگلے دن میں نے اپنے دونوں بچے اس سکول سے اٹھا کر اسلام آباد کے ایک اور سکول میں داخل کرادیے۔

نئے سکول میں احمد داخل ہوا تو وہ کلاس شروع ہوئے تین ماہ گزر چکے تھے۔ اس کلاس کی ایک ٹیچر صائمہ فرید صاحبہ نے جس طرح احمد کا خیال رکھا اور اسے ایڈجسٹ ہونے میں مدد دی وہ کبھی نہیں بھول سکا۔ ان کی بیٹی زینب فرید بھی اس کلاس میں پڑھتی تھی۔

میڈیم صائمہ نے اپنی بیٹی زینب کی ساری کلاس کی کاپیاں/ہوم ورک مجھے دیں اور کہا انہیں فوٹو کاپی کرالیں۔ احمد کو کہا بیٹا جو بات سمجھ میں نہ آئے آپ نے میرے پاس آنا ہے۔

میں گھر آیا اور کاپیاں کھولیں تو اتنی شاندار ہینڈ راٹننگ جو آپ آج کل کے انگلش میڈیم سکول بچوں سے توقع نہیں رکھتے۔ صاف ستھری لکھائی اور لگ رہا تھا کسی قابل بچی کا کام تھا۔

میڈیم صائمہ فرید جیسی ہنس مکھ فی میل استاد میں نے شاید ہی دیکھی ہو۔ ہر ایک کی مدد کو تیار چاہے کلاس ہو، پیرنٹس ٹیچر میٹنگز ہوں، ہوم ورک یا اسپورٹس ڈے۔ ہمیشہ ایکٹو اور ہنستی مسکراتی ملتیں۔

ایک دن میں نے انہیں کہا میڈیم آپ اپنے کام کو انجوائے کرتی ہیں۔ آپ کو پڑھانا اچھا لگتا ہے۔ آپ بچوں سے تنگ نہیں پڑتیں۔ استاد ایسا ہونا چاہئے جسے وہ کام پسند ہو۔ بندہ زندگی میں وہی کام کرے جو اس کا من کرتا ہے وہ ساری عمر خود بھی انجوائے کرتا ہے اور اس کے ساتھ کام کرنے والے بھی کرتے ہیں۔

وہ چھوٹی سی زینب فرید اب تقریبا میرے برابر قد کی کھڑی تھی جس نے برسوں پہلے ماں کے کہنے پر اپنی ساری کاپیاں مجھے تھما دی تھی۔ ماں بھی ہنستی مسکراتی تھی اور بیٹی بھی۔

کچھ دیر زینب مجھ سے باتیں کرتی رہی۔ احمد کی بات ہوئی تو میں نے کہا احمد نے جو کچھ ہمیں گھر پر ایک دن ساتویں جماعت میں کہا جب وہ شاید گیارہ بارہ برس کا تھا کہ میں نے بڑا ہو کر فلاں کام کرنا ہے آج کل وہ وہی کررہا ہے۔ اسے وہی کام ملا ہے جو اس کا ڈریم جاب تھا۔

زینب سے باتیں کرتے مجھے احساس ہوا کہ صائمہ فرید صاحبہ جیسے اچھے خوش اخلاق اور خوبصورت استاد بھی کتنی بڑی نعمت ہوتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں لوگوں کے اچھے کام ہم انسان جلد بھول بھول جاتے ہیں لیکن صائمہ فرید جیسی شاندار استاد کی آپ کے بچوں ساتھ کی گئی نیکیاں نہیں بھولتیں۔ آپ کے بچوں کی تعلیم تربیت میں اچھے استادوں کا بہت رول ہوتا ہے۔ اچھے استاد بھی گمنام ہیروز ہوتے ہیں جنہیں ہم اپنے بچوں کی کامیابیوں میں بھول جاتے ہیں اور سارا کریڈٹ ماں باپ خود خود لے لیتے ہیں۔ آپ کے بچے کی ترقی میں کئی استادوں کا رول ہوتا ہے۔ ماں باپ کا رول تو ان کا فرض ہے اور کل کلاں آپ کا بچہ ترقی کرتا ہے تو اس کے فوائد آپ ماں باپ ہی اٹھاتے ہیں۔ کبھی کوئی استاد اپنے شاگرد کے گھر اس کی مادی یا دنیاوی ترقی میں اپنا حصہ مانگنے نہیں جاتا۔

بہت بہت شکریہ میڈیم صائمہ۔ آپ نے اور دیگر استادوں نے احمد کا خیال رکھا۔ اسے پڑھایا اور اسے ایک اچھا بچہ بننے میں مدد دی جس کی وجہ سے الحمد اللہ اس نے ساتویں جماعت میں دیکھا گیا خواب اب پورا کیا ہے۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.

Check Also

Mein Kalla e Kafi Aan

By Syed Mehdi Bukhari