گورنر پنجاب کا بیٹا

آج کل کے بچوں سے اکثر شکایت رہتی ہے کہ شاید وہ اپنے بڑوں کا وہ احترام نہیں کرتے یا ان میں مینرز کی کمی ہے۔ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔
ہر پچھلی نسل کو لگتا ہے کہ اگلی نسل خراب ہوگئی ہے۔ وہ بات نہیں رہی جو ہم میں تھی۔ جتنی عزت احترام ہم اپنے بڑوں کا کرتے تھے وہ ہمارے بچے یا اس عمر کے دیگر بچے نہیں کرتے۔ ہر نسل خود کو بہتر اور اپنے سے اگلی نسل کو اچھا نہیں سمجھتی۔ مزے کی بات ہے جب یہ پرانی نسل جوان تھی تو انیس بیس ان کے بزرگوں کو بھی یہی شکایت تھی۔ مان لیا عزت احترام بہت تھا لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ ایشوز ایسے ضرور پیدا ہوجاتے تھے جس سے بزرگوں کو کہنے کا موقع مل جاتا تھا کہ وہ بات نہیں رہی جو ہم میں تھی۔ شاید اس بات کو جنریشن گیپ کا نام دیا جاتا ہے اور میں ذاتی طور پر اس گیپ کا حامی ہوں ورنہ انسانی ترقی رک جائے گی۔
عموما دیکھا گیا ہے نوجوان لڑکے کسی کے لیے دروازہ نہیں کھولیں گے یا کھول کر اسے پکڑ کر نہیں رکھیں گے یا کسی اور کو نہیں کہیں گے کہ پہلے آپ گزریں۔ وہ شوں کرکے گزر جائیں گے۔ لیکن ابھی بھی کبھی کبھار حیرت منتطر ہوتی ہے۔
کچھ دن پہلے کلب کے جم میں ایک دراز قد خوبصورت نوجوان مجھ سے پہلے دروازے سے گزرنے لگا۔ اچانک اس کی آنکھ مجھ پر پڑی تو رک گیا اور مجھے کہا پہلے۔ میں نے کہا کوئی نہیں آپ گزر جائیں۔ لیکن وہ نہیں گزرا اور مجھے کہا پہلے آپ۔
ہوسکتا ہے یہ معمولی بات ہو۔ ایسے واقعات روز دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن وہ باہر کے ملکوں میں۔ ہمارے ہاں کسی کے لیے دروازہ کھولنا یا اسے پہلے گزرنے دینا تہذیب سے زیادہ انا اور کمزوری سمجھا جاتا ہے۔
میں نے اس نوجوان سے پوچھا تو بتایا اس کا نام فیضان حیدر ہے۔ پھر پتہ چلا وہ گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کا بیٹا ہے۔ گورنر صاحب سے کہنا تھا انہوں /ان کی اماں نے اپنے بیٹے کی اچھی تربیت کی ہے۔ ایک مہذب اور باادب نوجوان ورنہ ہمارے ہاں کب کسی مشہور یا اونچے عہدے پر بیٹھے انسان کا بیٹا کسی کے لیے دروازہ کھول کر رکھے گا کہ پہلے آپ گزریں۔
کسی نے کیا خوب بات کی تھی کہ آپ نے کسی کے کردار کو جج کرنا ہو تو اس کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے کیا کریں، بڑے کام اور بڑی بڑی باتیں ہم سب فیک Fake کر لیتے ہیں۔