ڈاکٹر ڈاکر نائک اور پاکستانی سامعین
ڈاکٹر ذاکر نائیک آخر ایک ماہ دورے بعد پاکستان سے چلے گئے ہیں۔ اگرچہ مجھے سمجھ نہ آئی ان کے دورے کا کیا مقصد تھا۔ ہمارے کچھ مہربان جو پہلے ڈاکٹر ذاکر نائیک سے متاثر تھے وہ اب شدید مایوس ہوئے ہیں۔
ان کے لیے عرض ہے بھارت میں وہ غیر مسلموں کے سوالات کا جواب دیتے تھے جنہیں شاید اسلام بارے جانکاری نہ تھی لہذا ہمیں پاکستان میں بیٹھ کر انہیں سن کر لگتا تھا دیکھیں وہ کتنے غیر مسلم لوگوں سے نبردآزما ہیں اور کتنا بڑا کام کررہے ہیں۔
لہذا ہم نے ان کی بہت ساری باتوں (خامیوں) کو اپنے اس تعصب کی وجہ سے نظر انداز کیا اور انہیں ہندوستان میں کھڑے ہو کر اسلام کا جھنڈا اونچا کرنے والا پایا جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور وہ غیرمسلموں ساتھ مباحثہ کر رہے تھے۔
لیکن جب وہ پاکستان آئے جہاں اکثریت مسلمان ہے اور یہاں ہم لوگ ان کے پائے کے عالموں کو سنتے اور سمجھتے رہے ہیں اور عام لوگ خود بھی اسلام کا شعور رکھتے ہیں اور وہ ہندوستان کے غیر مسلم کے برعکس اسلام کو زیادہ سمجھتے ہیں تو ڈاکٹر صاحب انہیں متاثر کرنے میں ناکام رہے۔
میرے اپنے خیال میں ہمارے پاکستانی علماء کا رویہ ڈاکٹر نائیک سے بہتر ہوتا ہے جب ان سے کوئی متنازعہ یا ناپسندیدہ سوال کیا جائے۔ ہمارے پاکستانی علماء ابھی بھی تحمل سے جواب دیتے ہیں۔ وہ فوراََ فتوی نہیں جڑ دیتے یا شٹ آپ کال نہیں دیتے جیسے ڈاکٹر نائیک کا مخصوص انداز ہے۔ اس لیے جب ڈاکٹر صاحب کو پاکستانیوں نے چھبتے ہوئے سوالات کیے تو ڈاکٹر نے انہیں ہندوستانی مجمع کی طرح ٹریٹ کرنے کی کوشش کی اور شٹ آپ کال دی تو اس کا شدید ردعمل آیا جس کی توقع ڈاکٹر صاحب بھی نہیں کررہے تھے۔
ڈاکٹر صاحب تو اب تک واہ واہ اور بلے بلے کے عادی تھے اور یوں ان اہم سوالات پر چڑچڑے ہوکر انہوں نے فتوی داغنے شروع کیے اور ڈانٹ ڈپٹ شروع کی اور بات پی آئی آے کے سامان تک لے گئے۔
اگر ڈاکٹر صاحب پاکستانی سامعین سے دور رہتے تو ان کا امیج شاید ہمیشہ اچھا رہتا۔ لیکن وہ ایک ایسے معاشرے میں لیکچر دے رہے تھے جہاں لوگوں کی سمجھ ہندوستانی مجمع سے بہرحال بہت بہتر تھی۔ ہماری اکثریت ابھی بھی ماڈریٹ اور پروگریسو ہے جس کا اندازہ ڈاکٹر صاحب کو خیبرپختون خواہ کی ایک بیٹی کے جرات مندانہ سوال سے ہوگیا ہوگا جس پر انہوں نے اس پر فوراََ فتوی داغا اور معافی مانگنے کا مطالبعہ کیا۔ سلام ہے اس لڑکی اور اس کے ماں باپ پر جنہوں نے معافی مانگنا دور کی بات ہے جواب تک نہیں دیا۔
پاکستانی معاشرہ ابھی بھی ماڈریٹ ہے اس لیے جب ڈاکٹر نے سوئٹ ہوم کی یتیم بچیوں کے سر پر ہاتھ نہیں رکھا اور نامحرم ہونے کا جواز پیش کیا تو پاکستانیوں کی اکثریت نے ان کے اس عمل کو پسند نہیں کیا۔
ڈاکٹر صاحب اس دفعہ غلط مجمع چن بیٹھے تھے۔ جہاں وہ پاکستانیوں سے مایوس ہوئے ہیں وہیں پاکستانیوں کی اکثریت بھی ان سے مایوس ہوئی ہے۔ وہی بات دور کے ڈھول سہانے۔