امریکہ سے نئی کیابوں کی آمد
ایک دوست سلمان احمد امریکہ سے پاکستان آرہے تھے۔ میسج کیا کچھ چاہئے۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ میں نے کہا جی۔ یہ دو نئی کتابیں ابھی امریکہ میں چھپی ہیں ان کا لنک بھیجا کہ لیتے آئیں۔ ان کی مہربانی پورے 80 ڈالرز خرچ کرکے لائے ہیں۔ اسی ڈالر چھوڑیں اصل کام ان کتابوں کا وزن تھا۔ امریکہ سے آتے ہوئے پانچ کلو اضافی وزن کو اپنے بیگز میں ایڈجسٹ کرنا اور پھر چوبیس گھنٹے کا سفر کرکے لے آنا میرے نزدیک بہت اہمیت رکھتا ہے۔ مجھے علم ہے مجھے کوئی امریکہ میں کہے کہ یار فلاں شرٹ فلاں دوست کے لیے لیتے جائو تو میں سامان زیادہ ہونے کی وجہ سے شاید انکاری ہو جائوں۔ لہذا سلمان صاحب کا یہ بھاری بھر کم کتابیں لانا میرے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔
خیر ایک تو امریکن صدر ریگن کی نئی بائیوگرافی ہے جو بڑی محنت ساتھ لکھی گئی ہے اور اس سال ہی چھپی ہے۔ دوسری بھی بائیو گرافی ہے جو مشہور ادیب رابرٹ سٹیوسن کی ہے۔ یہ وہی ادیب ہے جس کا ناول Treasure Island، Kidnapped، Strange case of Dr Jekyll and Mr Hyde بہت مقبول ہوئے۔ ٹریژ آئی لینڈ پر تو فلم بنی تھی جو مجھے بہت پسند تھی۔ یہ میاں بیوی کی محبت کی حیران کہانی ہے۔
خیر ریگن ہو یا سٹیوسن دونوں اس دنیا میں نہیں رہے۔ اس کے باوجود ان مصنفین نے ان کی پوری زندگی کو کھنگال کر رکھ دیا ہے۔ ایک کتاب سوا آٹھ سو صحفات کی ہے تو دوسری تقریبا پانچ سو۔ اندازہ کریں انہوں نے ان کی زندگی پر کتنی ریسرچ کی ہے، محنت کی ہے۔ کتنے برس خرچ کیے ہیں۔
دوسری طرف کل ہی ملتان سے ایک بڑے پیارے دوست کا میسج تھا کہ یار ہماری یونیورسٹی کے ایک اسٹوڈنٹ نے تمہارے تراجم گاڈ فادر، تاریک راہوں کے مسافر اور سنہری آنکھوں والی لڑکی پر ایک تھیسز لکھنا ہے۔ اب تم جلدی سے اپنے بارے پانچ چھ صحفات لکھ کر بھیج دو۔ اپنی پیدائش سے تعلیم اور پروفینشنل لائف سے تراجم تک۔
میں اس وقت سے سوچ رہا ہوں اپنے بارے کیسے لکھا جاسکتا ہے اور وہ لکھ کر کسی کو دیں کہ وہ اب اپنے تھیسز میں کاپی پیسٹ کرکے لگا دے؟ اپنے بارے اچھا لکھوں یا برا لکھوں؟ وہی انڈین وزیراعظم نہرو جی کی بات یاد آتی ہے کہ اپنے بارے لکھنا دنیا کا مشکل کام ہے۔ اپنی تعریف کرو تو پڑھنے والا کا دل دکھتا ہے۔ اپنی تعریف نہ کرو تو اپنا دل تکلیف دیتا ہے۔
بیٹھا سوچ رہا ہوں اپنے بارے لکھا ہی کیوں جائے کہ کون سے کارنامے ہیں۔ اگر کارنامے ہیں تو ڈھونڈنے اور ریسرچ کرنے والے خود ہی ڈھونڈ لیں گے جیسے اب ان امریکن لکھاریوں نے ڈھونڈ لیے ہیں۔ کتنا آسان ہوگیا ہے کہ ادیب یا متراجم کو کہو اپنے بارے پانچ چھ صحفات لکھ کر بھیج دے۔ آپ کا دوست ہے بھلا کیسے انکار کرے گا؟ پانچ چھ صحفات تو بہت دور کی بات ہے میں تو اپنے بارے پانچ چھ سطری بھی شاید نہ لکھ پائوں۔
کبھی دل کرتا ہے خود کسی پر ریسرچ کروں اور ایک ناول نما اس پر کتاب لکھوں تاکہ ان روایتی جملوں سے جان چھوٹے جن سے مجھے شدید چڑ ہے۔۔ فلاں بڑے صاحب کے فن اور شخصیت کا ایک جائزہ۔۔
دل میں حسرت ہی رہی کبھی کسی ادیب شاعر یا دانشور کا ایسے روایتی بورنگ عنوان کے ساتھ کچھ ایسا مواد پڑھوں کہ ان دو امریکن کتب کی طرح آپ شروع کریں اور نیچے نہ رکھ پائیں۔ جیسے استادوں نے خود بورنگ تھیسز لکھے تھے وہی اب تھیسز اپنے شاگردوں سے لکھوا رہے ہیں۔ ہم سب ایک ہی دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ کوئی اس چکر کو توڑنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ اپنے اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلنا محنت طلب کام ہے اور کام کے بارے میں تو آپ کو علم ہی کہ کم جوان دی موت اے۔