اے سکینلولس لائف
یہ بائیوگرافی ایک پرانی بکس کی دکان سے چند سو روپوں میں خریدی تھی۔ مجھے علم نہ تھا اسے پڑھتے ہوئے مجھے جھرجھری آئے گی۔ یاد کرنے کی کوشش کی کہ کب آخری دفعہ کوئی کتاب، ناول یا کہانی پڑھی تھی جسے پڑھتے ہوئے بدن میں سنسنی اور آپ کو بار بار جھرجھری محسوس ہو۔ فوری طور پر کسی کتاب کا نام نہ آیا۔ فلمیں تو درجنوں ہوں گی جنہیں دیکھتے ہوئے سنسنی یا جھرجھری محسوس ہو۔
ماضی قریب میں شاید The Godfather، The Reader، Forty Rules Of Love، Winner stands alone جیسے ناول تھے جنہیں پڑھتے ہوئے سنسنی محسوس ہوئی تھی۔
مجھے بھی آپ کی طرح بائیوگرافی پڑھنے کا شوق ہے۔ اس شوق میں یہ کتاب خریدی تھی۔
یہ کتاب بڑی ریسرچ کے بعد لکھی گئی ہے۔ ایک خوبصورت انگریز لڑکی کی داستان ہے جو انگلینڈ کی اشرافیہ اور امیر گھرانے میں پیدا ہوئی تھی۔ اس کے والدین توقع کررہے تھے کہ بیٹا پیدا ہوگا لیکن بیٹی پیدا ہوئی تو انہیں زیادہ خوشی نہ ہوئی۔ لیکن جب لڑکی کی خوبصورتی کو دیکھا تو وہ بیٹا بھول گئے۔ اتنی خوبصورت اور پیاری لڑکی شاید ہی پورے انگلینڈ میں ہو۔ ابھی وہ سترہ سال کی عمر میں سکول سے فارغ ہی ہوئی تھی کہ اس کی شادی برطانیہ کے ایک سیاستدان سے ہوگئی جو ہوس جاہ کا مارا تھا جو اس لڑکی سے دوگنی عمر کا تھا۔ جین کی خوبصورتی کے چرچے ہر طرف تھے۔ کابینہ کا وزیر بننے کے چکر میں مصروف وہ سیاستدان اپنی نوجوان بیوی کو توجہ نہ دے سکاتو اس نے جلد اپنا دل کہیں اور لگا لیا۔ ابھی اس کی عمر اکیس برس نہیں ہوئی تھی کہ اس کا آسٹریا کے شہزادے کے ساتھ رومانس چل پڑا۔ وہ اس شہزادے ساتھ بھاگ گئی جس پر انیسویں صدی کی سب سے سکینڈل زدہ طلاق کا کیس چلا جس نے پورے یورپ میں دھوم مچا دی۔
وہ کیس اتنا مشہور تھا کہ The Times کے قاری اس وقت حیران رہ گئے جب اس اخبار نے فرنٹ پیج پر پورا عدالتی فیصلہ چھاپ دیا۔ اس رپورٹ میں شہزادے اور جین کے درمیان جنسی تعلقات کی سب تفصیلات بھی چھاپ دی گئیں۔ پورا برطانیہ ششدر رہ گیا جب اکیس سالہ جین نے عدالت میں آسٹرین شہزادے ساتھ اپنے بے پناہ جنسی تعلقات کا اعتراف کیا۔ شہزادے کی محبت میں وہ اتنی غرق تھی کہ وہ یورپ چلی گئی تھی۔ جین کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ اگلے بیس برسوں میں جین نےکئی لو افئیرز چلائے جس میں یورپین آرسٹوکریسی کے لوگوں سے لے کر جرمن نواب اور یونانی جاگیردار کے علاوہ باویرا کا بادشاہ بھی شامل تھا۔ ایک البانین جنرل سے بھی رومانس چلا۔ اس دوران اس نے دو اور شادیاں بھی کیں اور یورپ کی شاہی درباروں سےترکی تک کے سفر کیے۔
آخر بہت سارے سکینڈلز اور طلاقوں اور دھوکوں بعد اس نے شام کا سفر کرنے کا ارادہ کیا۔ اس وقت تک اس کی عمر پچاس سال ہوچکی تھی اور اسے لگتا تھا بس اب اس کی زندگی ختم ہورہی تھی۔ اسے علم نہ تھا کہ اس کی زندگی کے اگلے تیس برس تو سب سے زیادہ حیران کن اور سنسنی خیز ہونے والے تھے۔ ایک عرب نوجوان جسے اس کے ساتھ اس بھیجا گیا تھا کہ وہ اسے شام تک لے جائے اسے اس پچاس سالہ جین ساتھ عشق ہوگیا۔ وہ زیادہ سے زیادہ اس کے بیٹے کی عمر جتنا ہوسکتا تھا، عربی کلچر، زبان اور پہلے سے شادی شدہ تھا۔ اس نے جین سے کہا مجھ سے شادی کر لو۔ پہلے تو اسے شک گزرا۔ اس نے نظرانداز کیا لیکن پھر جین کو بھی اس سے شدید محبت ہوگئی۔ اسے سب نے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانی۔ وہ نوجوان شیخ مجید المضراب اس کی زندگی کی محبت بنا اور دونوں میں وہ رومانس اور ایڈونچر ہوا جس کا اس نے خواب تک نہ دیکھا تھا۔
جین کی پچاس سال کی زندگی کی کہانی ایک طرف لیکن اس کے عرب نوجوان ساتھ اگلے تیس سال کی کہانی آپ کو کسی اور دنیا میں لے جاتی ہے۔ کچھ انسان اپنے ساتھ سات جنموں کی محبت پیار رومانس لے کرپیدا ہوتے ہیں لیکن وہ سب کچھ ایک ہی جنم میں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جین نے بھی سات جنموں کی محبت، رومانس، شادیاں اور فلرٹ ایک ہی زندگی میں مکمل کیے۔ تصور کریں تقریبا دو سو سال پہلے برطانیہ کے کنزریوٹو معاشرے میں ایک اکیس سالہ لڑکی عدالت سامنے اپنے آسٹرین شہزادے ساتھ رومانس اور جنسی تعلقات کی چھوٹی چھوٹی جزئیات بھی بتا رہی ہے۔ وہ کسی سے خوفزدہ نہیں۔ یہ ایک جین کی کہانی نہیں بلکہ سات جنموں کی کہانی ہے۔
کچھ انسانی روحیں سات جنموں کا رومانس محبت ایڈونچر کا کوٹہ ایک ہی جنم میں یہ سوچ کر خرچ کر ڈالتی ہیں کہ پتہ نہیں اگلا جنم نصیب ہو یا نہ ہو۔ دوبارہ زندگی ملے یا نہ ملے۔
خوبصورت جین وہی بے چین انسانی روح تھی جو اس دنیا میں صرف رومانس اور محبت کی تلاش میں آئی تھی۔