ٹھگ
برصغیر میں ٹھگوں کا وجود چودہویں صدی عیسوی سے نظرآتا ہے۔ قرائن یہ بتاتے ہیں، کہ یہ لوگ اس سے بھی پہلے موجود تھے۔ ضیاء الدین برنی نے تاریخ فیروز شاہی میں ان کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔ ٹھگ کیا تھے۔ ان کاجرائم میں کیا کردار تھا۔ یہ جاننا کسی بھی انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔
یہ حد درجہ سفاک لوگ تھے جو انتہائی مہارت سے لوگوں کو لوٹتے تھے اور ساتھ ساتھ انھیں گلہ گھونٹ کر قتل کر دیتے تھے۔ ٹھگ، لوگوں کا خون نہیں بہنے دیتے تھے۔ بلکہ ایک رومال جس کے درمیان میں سکہ ہوتا تھا، اس کے ذریعے ہدف کو ڈیڑھ دو منٹ میں جہان فانی سے رخصت کردیتے تھے۔ حیدر آباد دکن سے شروع ہونے والے قاتلوں کا یہ گروہ آہستہ آہستہ پورے برصغیر میں پھیل گیا۔ ان کے مظالم سے کوئی بھی محفوظ نہیں تھا۔ ان میں ہر مذہب کے لوگ شامل تھے اور ان ٹھگوں کو کڑی تربیت کے بہت سے مراحل سے گزرنا پڑتا تھا۔ ان کا طریقہ واردات حد درجہ منظم تھا۔
یہ تین ٹولیوں کے حساب سے چلتے تھے۔ ایک جتھا، قافلے یا سرائے کے اندر موجود ہوتا تھا۔ جو اس چیز کا تعین کرتا تھاکہ کس مسافر کے پاس کتنی دولت موجود ہے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ یک دم متمول انسان پر حملہ نہیں کرتے تھے۔ یہ اس شخص کا اعتماد حاصل کرنا بخوبی جانتے تھے۔ اس زمانے میں سفر بہت آہستہ آہستہ ہوتا تھا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ آتے ہوئے بہت وقت لگتا تھا۔ لہٰذا ٹھگوں کو اپنے اہداف کا اعتماد حاصل کرنے کا بہت وقت میسر رہتا تھا۔ تمام معلومات لیتے تھے اور دوست بن کرکسی بھی سنسان جگہ پر یک لخت ٹارگٹ پر اچانک حملہ کرکے اس کا گلہ گھونٹ دیتے تھے اور پیسے لوٹ لیتے تھے۔ ان کی منظم کارکردگی کا اس امر سے جائزہ لیں کہ ٹھگوں کے دو جتھے یا گروہ اور بھی ہوتے تھے۔
ایک گروہ مرنے والوں کے لیے قبریں کھودتا تھا اور مسافروں سے تھوڑا سا آگے چلتا تھا۔ کوئی جان ہی نہیں سکتا تھا کہ یہ جرائم پیشہ لوگ آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ چالاکی کی انتہاء دیکھیے کہ ٹھگوں کی ایک تیسری ٹولی مسافروں کے پیچھے رہتی تھی اوراس چیز پر کڑی نظر رکھتے تھے کہ قتل کرنے والے گروہ کو کوئی مسئلہ نہ ہو۔ اگر اس تیسرے گروہ کو معمولی سا بھی اندازہ ہو جاتا کہ ان کے آگے چلنے والے ڈاکوؤں کو کوئی مسئلہ پیش آ سکتا ہے تو فوراً واردات سے سب روک دیتے تھے۔
ٹھگوں میں ہندو، مسلمان، سکھ تمام مذاہب کے لوگ شامل تھے۔ یہ ٹھگ بھوانی دیوی کی پوجا کرتے تھے۔ پوجا پاٹ کے درمیان اشارے تلاش کرتے تھے کہ انھیں واردات کرنی چاہیے یا نہیں۔ یہ لوگ حد درجے وہمی تھے اور اگر کوئی ہلکا سا اشارہ بھی معلوم ہوتا کہ مصیبت میں پھنس سکتے ہیں، تو فوری طور پر جائے واردات سے غائب ہو جاتے تھے۔ ان کی مخصوص زبان تھی جس کا نام رماسی تھا۔ یہ زبان صرف اور صرف یہ ٹھگ سمجھ سکتے تھے۔ مثال کے طور پر جب انھیں اپنے ہدف پر قابو پانے کا یقین ہو جاتا تھا۔ تو آپس میں کہتے تھے کہ آؤ تمباکو کھا لو۔ اس کا مطلب تھا کہ فوری طور پر مسافر کو قتل کر دو۔ مزید، یہ مخصوص اشاروں میں ایک دوسرے سے گفتگو کرنا بھی جانتے تھے۔
عجیب بات یہ ہے کہ یہ لوگ جو ہزاروں کی تعداد میں تھے، اپنے گاؤں یا شہر کے نزدیک کوئی واردات نہیں کرتے تھے۔ ان کے ہمسائے یا رشتے دار تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ ان کا عزیز کتنے بھیانک جرم میں ملوث ہے۔ گھروں میں یہی معلوم ہوتا تھا کہ یہ کسی قسم کا معقول کاروبار کر رہے ہیں۔ اس کے لیے انھیں تین چار ماہ گھر سے دور رہنا پڑتا ہے۔ یہ تمام لوگ بھیس بدلنے کے ماہر ہوتے تھے۔
اس قدر مشاق تھے کہ روزانہ کی بنیاد پر ایک نیا روپ دھار سکتے تھے۔ انھیں پہچاننا عام آدمی کے لیے ناممکن تھا۔ ان میں سے چند ٹھگ ایک ہزار سے زیادہ بندوں کو قتل کر چکے تھے۔ جیسے امیر علی جو کہ مسلمان تھا اس نے تقریباً ایک ہزار لوگوں کو سفاک طریقے سے قتل کیا تھا۔ اسی طرح ٹھگ بہرام جو ان کا سردار بھی تھا، اس کا تذکرہ دنیا کے سب سے زیادہ قتل کرنے والے انسان کے طور پر جانا جاتاہے۔ مغلوں کے ناقص نظام حکومت کا اندازہ لگایئے کہ سیکڑوں سال انھیں معلوم ہی نا ہو پایا کہ برصغیر میں کتنے خطرناک گروہ کام کر رہے ہیں۔
اگر کوئی مسافر چند ماہ بعد واپس نہیں آتا تھا تو گھر والے رو پیٹ کر صبر کر لیتے تھے۔ جب برصغیر میں انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی تو انھیں یہ شبہ ہوا کہ مسافروں کی غیر معمولی تعداد اپنے منزلوں پر نہیں پہنچتی اور یہ کام کوئی گروہ کرتا چلا جا رہاہے۔ William Sleeman پہلا برطانوی افسر تھا جس نے اس پورے ظالمانہ نظام کو برہنہ کیا اور حد درجہ محنت کے بعد ان میں سے سرکردہ لوگوں کو پکڑ کر ان سے قیمتی معلومات حاصل کیں۔ برطانوی افسر سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ٹھگوں کے یہ گروہ جو مختلف صوبوں میں صدیوں سے کام کر رہے ہیں، اس قدر سفاک ہوں گے۔ سلمین کی کوششوں سے ان گنت خفیہ یا بے نام قبروں کی نشاندہی ہوئی۔
لاشوں کی تعداد سے پتہ چلا کہ وہ کتنے خطرناک جرائم پیشہ لوگوں پر ہاتھ ڈال رہا ہے۔ 1831سے لے کر اگلے چھ سال، برطانوی افسران نے تین ہزار دو سو چھیاسٹھ ٹھگوں کو گرفتار کیا۔ ان میں سے 412 لوگوں کو پھانسی دی گئی، 483 سلطانی گواہ بن گئے اور باقی تمام ٹھگوں کو کالا پانی بھیج دیا گیا۔ اگر ویلم سلیمین اپنے حد درجہ عظیم کام میں کامیاب نہ ہوتا تو یہ ٹھگ کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتے تھے۔
پر اب میں اس سنجیدہ موضو ع کا ایک نیا رخ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ یہ تو درست ہے کہ ٹھگی اور اس کاروبار سے منسلک قبائل برطانوی حکومت نے ختم کر ڈالے۔ لیکن کیا یہ سوچنا درست نہیں کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد، ہم نے ٹھگی کے ایک نئے نظام کو اپنے ملک میں پروان چڑھایا، جو اب ایک اژدھے کی طرح ہمارا سب کچھ برباد کر رہا ہے۔ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں کرپشن حالیہ بیس پچیس سال کا شاخسانہ ہے۔ یہ صرف اور صرف آدھا سچ ہے۔
وطن عزیز کے بننے کے فوراً بعد ڈاکوؤں اور ٹھگوں کا ایک طبقہ یک لخت پیدا ہوگیا تھا جو سیٹلمنٹ کے جعلی کلیم حاصل کرنے میں مہارت رکھتا تھا۔ یہ لوگ انڈیا کے سینٹرل ریکارڈ روم سے اپنی مرضی کے کاغذات بنواتے تھے اور پھر پاکستان آ کر ان پر جعلی طریقے سے بیش قیمت جائیداد الاٹ کروا لیتے تھے۔ یہ ٹھگی کی وہ ابتداء تھی جس نے نوسر بازوں کو قیمتی جائیدادوں پر مالک بنا دیا۔ وہ شریف مہاجر جو بابوؤں تک دسترس نہیں رکھتے تھے۔ اپنے اصلی کلیمزبھی حاصل کرنے میں ناکام رہے اور غربت کی چکی میں پستے رہے۔ اس کے متضاد جائیدادوں سے حاصل کی گئی ناجائز دولت سے کئی ایسے گھرانے پیدا ہوئے جنھوں نے سیاست کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔
سیاست وہ لبادہ تھا بلکہ ہے جس سے انھوں نے اپنے ناجائز کاروبار پر قانونی طریقے سے ایسا پردہ ڈالا کہ ان کا جرم ثابت کرنا بہت مشکل ہوگیا۔ بلکہ موجودہ حالات میں تو خیر مکمل طور پر ناممکن ہے۔ جعلی کلیم سے آگے بڑھیے۔ تو 1985کے بعد آپ کو سرکار کی سطح پر نجکاری کا ایک منظم جرم نظر آئے گا جس میں عیار لوگوں نے ہرحد درجہ منافع بخش سرکاری کارخانوں پر قبضہ کر لیا۔ کئی جگہ پر تو فیکٹریاں تک مفت دے دی گئیں۔ جعلی کلیمز اور جعلی نجکاری سے جنم لینے والا ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو آہستہ آہستہ ریاستی اقتدار پر قابض ہوگیا۔ لوٹ مار یا ٹھگی کا یہ نظام اب اپنی مکمل بھیانک شکل میں ہمارے سامنے آ چکا ہے۔ نجی بجلی گھروں کی لوٹ مار، اب ہمارے ملک کا سب سے بڑا مالیاتی سانحہ ہے جس کا خمیازہ پچیس کروڑ عوام سسک سسک کر بھگت رہے ہیں۔
پچیس تیس ٹھگوں نے پورے پاکستان کی معیشت کو اپنے قبضے میں کر رکھا ہے۔ ان کی لوٹ مار پر پوری دنیا میں ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ پر وہ اتنے منظم ہیں کہ انھوں نے اپنے جرائم کو قانونی لبادہ پہنا دیا ہے۔ لہٰذا آپ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ پرانے ٹھگ تو رومال سے گلا گھونٹ کر اپنے ہدف کو قتل کر دیتے تھے اور لوٹ مار کے بعد غائب ہو جاتے تھے۔ مگر ہمارے ملک کے نئے ٹھگ، لوگوں کو جان سے نہیں مارتے بلکہ ان کا معاشی قتل کرتے ہیں۔ پچیس کروڑ لوگ صرف اس لیے کام کر رہے ہیں کہ ان ماڈرن ٹھگوں کی تجوریاں بھرتے رہیں اور اپنے آپ کو زندہ سمجھیں۔ پرانے ٹھگوں سے تو ہم نے چھٹکارا حاصل کر لیا، مگر نئے ٹھگوں سے بچنا اب ناممکن ہے!