تاریخ سے سبق سیکھئے؟
کیا انسان کو سوچنے کا عمل ختم کر دینا چاہیے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ملک کے اندرونی اور بیرونی معاملات کسی طور پر شہریوں پر اثرنہ کریں؟ غیر متعصب سوچنے پر کسی قسم کی کوئی پابندی لگانا ممکن ہی نہیں ہے۔ کوئی بھی ذی شعور معروضی حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ملک کے اندرونی انتشار کی بدنما شکل اب بیرونی دباؤ کی صورت میں سامنے آ چکی ہے۔
امریکا کی نئی انتظامیہ، جوبائیڈن کے ہر کام کو تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس میں پاکستان کے متعلق اندرونی معاملات پر بھی کام جاری ہے۔ میرا فطری میلان کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف نہیں ہے۔ مگر اس امر سے نظریں چرانا نامناسب ہے کہ تحریک انصاف کو ایک توانا سیاسی قوت تسلیم نہ کیا جائے۔ بعینہ یہی معاملہ، ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی اور ضیاء الحق کے درمیان موجود تھا۔
بدقسمتی سے، آج یہی بگڑا ہوا گھاؤ رس رہا ہے۔ کسی بھی طرح سے اس زخم پر مرہم لگانے کی کوشش نہیں ہو رہی۔ چند اعداد وشمار رکھ رہا ہوں تاکہ اپنا بے لاگ نقطہ نظر پیش کر سکوں۔ الیکشن سے پہلے، تحریک انصاف کے ساتھ ہر صوبائی اور قومی ادارے نے برا سلوک کیا۔ ملک کا انتظامی نظام صرف اور صرف بانی پی آئی کی جماعت کے خلاف استعمال کیا گیا۔ مگر 2024میں اس کے باوجود تحریک انصاف نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔
گیلپ پاکستان کی شایع شدہ رپورٹ کے مطابق، پی ٹی آئی کو اکتیس فیصد (31فیصد) ووٹ پڑے۔ ن لیگ صرف چوبیس فیصد ووٹ حاصل کر پائی۔ اس تناسب سے حکومت تحریک انصاف کی بننی چاہیے تھی۔ مگر زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت کو اچھوت بنانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ خان صاحب کو گرفتار کرکے مقدمات قائم کیے گئے۔ صرف چند معروضات عرض کر رہا ہوں۔ مگر ہمارے حکومت کے سیاست دان یہ بھول گئے کہ پوری دنیا کے سفارت خانے، اس پورے عمل کو بڑی باریک بینی سے دیکھ رہے ہیں اور اپنے اپنے ممالک کے سربراہان کو بروقت مطلع بھی کر رہے ہیں۔
ماضی میں یہی معاملہ نواز شریف اور آصف زرداری کے ساتھ بھی کیا گیا تھا۔ مگر وہ دونوں قائدین پوری سیاسی قوت سے واپس آئے اور آج بھی حکومت میں موجود ہیں۔ یعنی سیاسی قوت کو کبھی ریاستی طاقت کے زور سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کے حصول میں مسلم لیگ ن کی سیاسی ساکھ متاثر ہوئی۔ بلکہ اصل نکتہ تو یہ ہے کہ نواز شریف کا سیاسی سرمایہ، اونچ نیچ کا شکار ہوگیا۔
میراگمان تھا کہ نواز شریف حکومت نہیں لیں گے بلکہ اپنے تجربہ کی روشنی میں، بانی پی ٹی آئی کے حق میں آواز اٹھائیں گے۔ ملک کے سب سے سینئر سیاست دان کی حیثیت سے ملک میں سیاسی انتشار کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ مگر چند خفیہ ہاتھوں نے انھیں یہ مثبت کام نہیں کرنے دیا اور میاں صاحب پیچھے ہٹ کر گھر بیٹھ گئے۔ نواز شریف کی سیاست میں انھوں نے ہمسایوں سے اچھے روابط پر ہمیشہ زور دیا۔ شاید یہی سوچ، ان کے خلاف استعمال کی گئی۔
آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ اگر ہماری موجودہ قیادت میں کوئی ایسا شخص ہے جو ہندوستان سے تعلقات کو بہتر بنا سکتا ہے تو وہ صرف بڑے میاں صاحب ہی ہیں۔ مگر گزشتہ دو ڈھائی سالوں میں، شاید ان کو، اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
کوئی نئی بات نہیں لکھ رہا۔ صرف یہ عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ سیاسی قوتوں کو پچھاڑ دیا گیا اور پی ٹی آئی کو عذاب میں ڈال دیا گیا۔ میڈیا کے متعلق کوئی بات نہیں کروں گا۔ ہمارے چند لکھاری بات کو ہائڈ پارک کی سیر سے شروع کرتے ہیں اور اس کی تان، بانی پی ٹی آئی کی تین سالہ حکومت کے خلاف بیانیہ بنانے پر ختم کرتے ہیں۔ مگر ہوا کیا ہے۔
تحریک انصاف کے ورکر خاموش تو ہیں مگر ان کی خاموش تعداد بڑھ گئی ہے۔ متعدد حکومتی وزراء سے بات ہوئی۔ ہر ایک اپنے ووٹ بینک کے کم ہونے سے پریشان نظر آیا۔ تحریک انصاف کے افراد کو اس لیے نہیں توڑا جا سکتا، کیونکہ اپنے اپنے حلقوں میں ان کے ووٹر پرتاثیر اکثریت میں ہیں۔ یہ معاملہ بدستور اس طرح کا ہے۔ یہ سب کچھ شاید یونہی چلتا رہتا۔ مگر امریکی الیکشن نے جوہری طور پر تمام معاملات کوتبدیل کر دیا ہے۔ چند حکومتی دوستوں نے منفی بیانات دے دے کر بیرونی دنیا میں پاکستانیوں کو حد درجہ ناراض کر ڈالا۔ چند سیاست دانوں نے تو انھیں وطن سے غداری تک کا طعنہ دے ڈالا۔ انھوں نے معاملہ اس حد تک بگاڑ دیا کہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی، تحریک انصاف کی طرف مائل ہو گئے۔
کسی بھی سنجیدہ سیاست دان نے یہ تبدیلی بروقت محسوس نہیں کی۔ انھیں بگاڑ کا تو علم تھا۔ مگر اس کو درست کرنے کے اقدامات کی طرف قطعاً توجہ نہیں دے سکے۔ امریکا اور برطانیہ میں تو تارکین وطن کی ایک تعداد بانی پی ٹی آئی کے کیمپ میں چلی گئی۔ امریکی الیکشن کے دوران ہمارے چند اہم ترین لوگوں نے بھرپور ٹھٹھا لگایا اور یہی سمجھے کہ پاکستانی سیاست کی مانند پروپیگنڈے کے زور پر، ٹرمپ کے خلاف ایک مؤثر بیانیہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مگر ایسا نہیں ہو پایا۔ امریکا میں امیر پاکستانیوں نے رد عمل کے طور پر ٹرمپ کی الیکشن کی بھرپور فنڈنگ کی اور اس کی پارٹی کے تمام اہم افراد سے براہ راست رابطہ میں آ گئے۔
شاید اکثر پاکستانیوں کو علم نہیں کہ ٹرمپ اور اس کے خاندان کے لوگوں نے امریکا میں پاکستانیوں سے بانی پی ٹی آئی کے حوالے سے کئی وعدے وعید کیے ہیں۔ یہ معاملہ اب سب کے سامنے آ چکا ہے۔ ہماری موجودہ حکومت، مؤثر طریقہ سے امریکا میں ٹرمپ کے راستے میں کوشش کے باوجود حائل نہیں ہو سکی۔ اب ہوا یہ ہے کہ ٹرمپ اور اس کی پوری ٹیم، پاکستان کے اندرونی حالات میں دخل اندازی کر رہے ہیں۔
اس میں سب سے طاقتور آواز Richard Grenell کی ہے۔ گرینل ششدر رہ گیا کہ بانی پی ٹی آئی کے حق میں اس کی ٹویٹ کروڑوں لوگوں تک پہنچی۔ گرینل کے مطابق، اس کی کوئی بھی ٹویٹ اتنے کثیر لوگوں تک رسائی حاصل نہ کر سکی جو موجودہ ٹویٹس کر رہی ہیں۔ موجودہ حکومت Richard Grenell کو منانے میں بھی ناکام رہی ہے۔ پاکستان کے میزائل سسٹم بنانے والے چار اداروں پر پابندی لگا دی گئی ہے جو بہرحال ہمارے ملکی مفادات کے خلاف ہے۔
ہر محب وطن پاکستانی اس بے جواز پابندی پر ناخوش ہے۔ امریکی حکومت سے اب پاکستان کے اندرونی معاملات پر دباؤ بتدریج بڑھتا چلا جائے گا۔ اس میں اگلے دو ماہ میں تیزی آنے کا امکان ہے۔ ہمارا موجودہ نظام اس طوفان کا کس طرح مقابلہ کرے گا۔ اس پر کچھ بھی کہنا قدرے قبل از وقت ہے۔ یہ حد درجہ نازک معاملہ ہے۔ ریاستی ادارے، ان معاملات کو کافی بہتر طور پر سمجھتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی سے براہ راست مذاکرات کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ اس بدلتی ہوئی صورتحال سے مسلم لیگ ن کافی پریشان نظر آتی ہے۔
اس وقت، سیاسی زخموں پر مرہم لگانے کی ضرورت ہے۔ عوام کو خاموش تو کیا جا سکتا ہے مگر ان کی رائے کو ماضی کی طرح، کوڑے کی ٹوکری میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ خوش فہمی ہے کہ ریاستی ادارے اب بانی پی ٹی آئی سے بامقصد مذاکرات کی طرف آئیں گے۔ یہ کامیابی ملک کی کامیابی ہوگی۔ اس سے ہمارے مسائل میں کافی کمی آ سکتی ہے۔ مگر افسوس کہ ہم نے تاریخ سے کبھی سبق نہیں سیکھا؟