Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Rao Manzar Hayat
  3. Saanp Ghar

Saanp Ghar

سانپ گھر

صاحب کا فون آیا۔ پوچھنے لگے دبئی آئے ہوئے ہو؟ حیران رہ گیا کیونکہ میں ایک کاروباری سلسلے میں دبئی ٹھہرا ہوا تھا اور تین چار ماہ سے ان صاحب سے میراکوئی رابطہ نہیں تھا۔ رسمی گفتگو کے بعد کہا کہ کل رات میرے گھر کھانا کھاؤ۔ باتیں بھی ہوں گی اور پاکستان کے موجودہ حالات کے متعلق چند معلومات پر توجہ مبذول کراؤں گا۔ خیر اگلے دن تقریباً شام کے چھ بجے صاحب کا ڈرائیور مجھے لینے آگیا۔ وردی میں ملبوس ڈرائیور مشرقی یورپ کا تھا اور گاڑی حد درجے قیمتی تھی۔ یعنی رولز رائس تھی۔ تقریباً چالیس پنتالیس منٹ سفر کے بعد صاحب کے گھر پہنچا۔ جو ایکڑوں پر محیط تھا۔ پورے گھر میں الیکٹرانک سیکیورٹی تھی اور مجھے کسی قسم کا کوئی چوکیدار یا گن مین نظر نہیں آیا۔

حفاظت کے لیے پورے گھر میں تقریباً نصف درجن روبوٹ کھڑے ہوئے تھے۔ جن کی موجودگی میں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا۔ قلعہ نما گھر میں داخل ہوا تو سفید فام ملازم نے بتایا کہ صاحب اسٹڈی میں آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ پورا گھر ایک میوزیم کی طرح تھا جس میں قیمتی ترین فانوس، بیش قیمت قالین آویزاں تھے۔ اسٹڈی بیسمنٹ میں تھی اور وہاں تک پہنچنے کے لیے شیشے کی لفٹ موجود تھی۔ خیر صاحب تک پہنچا تو وہ ایک کتاب پڑھ رہے تھے۔ عنوان مجھے عینک کے بغیر نظر آ رہا تھا۔ جو کافی مختلف سا تھا۔ تیز ہدف زہر اور ان کے بارے میں مکمل معلومات پر مبنی کتاب تھی۔ خیر میں نے اس پر توجہ دیے بغیر صاحب سے گفتگو شروع کر دی۔

پوچھنے لگے کہ ملک کے کیا حالات ہیں؟ معلوم تھا پاکستان کے متعلق ضرور گفتگو ہوگی۔ آپ بتائیے! آپ کی معلومات مجھ سے زیادہ ہیں۔ صاحب نے جواب دینے کے بجائے ایک ملازم کو بلایااور مخصوص اشارے سے کچھ لانے کا حکم دیا۔ ملازم ایک نفیس مرتبان لایا جس میں پیلے رنگ کا چھوٹا سا سانپ موجود تھا۔ صاحب نے بڑی مہارت سے سانپ کو پکڑ کر اس کے دونوں دانت سامنے پڑے گلاس میں یوں گاڑے کہ اس کا زہر قطروں کی صورت میں گلاس میں منتقل ہوگیا۔ گمان تھا کہ صاحب پاکستان کے متعلق کوئی نئی بات کریں گے۔ مگر ان کی یہ عجیب حرکت دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا۔ کہنے لگے، یہ زہر دنیا کا قیمتی ترین زہر ہے اور اس کی بہت مانگ ہے۔ یہ جمع کرکے، منہ مانگے داموں پر دنیا میں اہم ترین لوگوں کو فروخت کرتا ہوں۔ آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ میں سوال داغا۔ صاحب مسکراتے ہوئے کہا، میں نے پاکستان کے حالات کے متعلق آپ کو سب کچھ بتا تو دیا ہے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی۔ پھر بولے، سانپ کا زہر نکال دیا جائے تو وہ بے ضرر ہوجاتا ہے۔

دنیا میں طاقتور ملک اور ہمارے مخصوص حکمران پاکستان کی طاقت کو بیش قیمت زہر کی طرح فروخت کر چکے ہیں۔ صورتحال مزید بگڑے گی۔ پھر ایک زور سے قہقہہ لگایا اور کہا کہ ایک ہندوستانی مووی اسٹار ان کا بہت اچھا دوست ہے۔ اس کی دولت سات بلین ڈالر سے زیادہ ہے جب کہ پاکستان کے لیے ورلڈ بینک کا محض سات بلین ڈالر کا قرض منظور ہوا ہے۔ اگر ایک ملک کے پاس اتنی رقم بھی نہیں ہے اور وہ قرض لینے پر مجبور ہے تو سمجھ لو کہ اس کے اثاثے دربدر ہو چکے ہیں۔ اچانک صاحب کے مخصوص فون پر گھنٹی بجی تو انھوں نے اسپیکر آن کر دیا۔

دوسری طرف ہمارے ملک کی ایک اہم شخصیت تھی۔ وہ مزید اختیارات اور مراعات کے لیے مدد کی طالب تھی۔ صاحب نے اسے آگاہ کیا کہ آپ کے کئی اور ساتھی بھی لائن میں لگے ہوئے ہیں۔ فیصلہ چند دنوں میں آپ کو بتاؤں گا۔ یہ گفتگو سن کر کم از کم میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ہمارے ملک کے فیصلے کیسے طے ہوتے ہیں۔ مجھ پر انکشاف ہوا کہ اس فون پر ہونے والی گفتگو ریکارڈ نہیں کی جاسکتی۔ ممکن ہے امریکا اور اسرائیل وغیرہ کے پاس ٹیکنالوجی ہو۔

دبئی میں کتنے عرصے سے ہیں؟ کہنے لگے کہ تقریباً ایک ہفتہ ہو چکا ہے۔ اب سوئٹزرلینڈ جانے کی تیاری کر رہا ہوں۔ میرے ذہن میں حد سے زیادہ تجسس تھا کہ صاحب دبئی میں بیٹھ کر کیا کر رہے ہیں؟ اور ہمارے ملک کے معاملات میں کس قدر اثر رکھتے ہیں؟ چلو کھانا کھاتے ہیں، چند دوستوں کو بھی بلایا ہوا ہے۔ مجھے بالکل معلوم نہیں تھا کہ میرے علاوہ کوئی اور بھی کھانے پر مدعو ہے۔ ڈائینگ روم میں دو غیر ملکی بیٹھے صاحب کا انتظار کر رہے تھے۔ تعارف کرایا کہ یہ سوئٹزر لینڈ میں بینکوں کے سربراہ ہیں اور میرے ساتھ ان کا کاروباری تعلق ہے۔ کھانے کا ماحول حددرجہ سنجیدہ سا تھا۔ پاکستان اور چند دیگر ممالک کے اہم ترین لوگوں کی دولت سوئس بینکوں میں ٹراسفر کرانے کی بات ہو رہی تھی۔ صاحب انھیں تفصیل سے بتا رہے تھے کہ یہ کام کب اور کیسے کرنا ہے۔ مجھے دیگر حکمرانوں کے ناموں سے تو کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ مگر پاکستان سے دلچسپی ضرور تھی۔

آداب محفل کے برخلاف صاحب سے پوچھا کہ ہمارے ملک کے وہ کونسے افراد ہیں جو اپنی دولت سوئٹزرلینڈ منتقل کرانا چاہتے ہیں؟ صاحب نے میرے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ صرف یہ کہا کہ یہ لوگ تمہارے ملک کے مالک ہیں۔ کھانے کے بعد ہم سارے صاحب کے ڈرائینگ روم میں بیٹھ گئے۔ میں نے ایک محیر العقول نکتہ کشید کیا کہ مہمان ایک دوسرے سے یا صاحب سے کم سے کم بات کررہے تھے۔

ہر ایک کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا جس پہ چند جملے لکھ کر ایک دوسرے کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ کاغذ واپس لے کر اپنی جیب میں ڈال لیتے تھے۔ تقریباً ایک گھنٹے کی نشست میں سوئس بینکوں میں دولت منتقل کرنے کا محفوظ انتظام کر دیا گیا۔ کھانا ختم ہوا تو صاحب نے کہا کہ میں نے اپنے گھر میں چڑیا گھر بنایا ہوا ہے۔ آؤ وہاں چلتے ہیں۔ خیر مجھے اس چیز کا تو علم تھا کہ صاحب اپنے ہر گھر میں نایاب پرندے اور جانور رکھنے کے شوقین ہیں۔ خیر ہم گھر سے نکل کر وسیع لان کے آخر میں پہنچے تو شیشے کے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ یہ سانپ گھر تھا جو نایاب اور زہریلے سانپوں سے بھرے ہوئے تھا۔

ان شیشوں کے کمروں کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا پنجرہ تھا جس میں چوہے اور مینڈک بھرے ہوئے تھے۔ صاحب نے نوکر کو اشارہ کیا تو اس نے پنجرے میں سے دس بارہ چوہے اور مینڈک نکال کر سانپوں کے شیشے والے کمروں میں پھینک دیے۔ اس کے بعد کا نظارہ حد درجے بھیانک تھا۔ بے سدھ پڑے رنگ برنگے سانپوں میں یکدم توانائی آ گئی اور وہ چوہوں اور مینڈکوں کو چند لمحوں میں زندہ نگل گئے۔

صاحب بڑے غور سے اس کریہہ منظر کو دیکھ رہے تھے۔ ڈاکٹر! یہ اصل دنیا ہے۔ طاقتور جانور ہو یا طاقتور انسان، وہ کمزوراور چھوٹے جانور یا انسان کو چیر پھاڑ کر نگل جاتا ہے۔ صاحب کہنے لگے، آؤ! میں تمہیں کچھ اور بھی دکھاتا ہوں۔ لان کے دوسرے کونے میں چار زرد رنگ کے اژدھے سو رہے تھے۔ صاحب کہنے لگے، میں نے ان اژدھوں کو پنجرے میں نہیں رکھا۔ کیونکہ یہ زہریلے سانپوں سے مختلف ہیں۔

صاحب نے ملازم کو کہا کہ جاؤ ان کی خوراک کا بندوبست کرو۔ ملازم چند چھوٹے چھوٹے میمننے لے کر آیا اور انھیں اژدھوں کے سامنے پھینک دیا۔ مجھے ایسے لگا کہ کسی نے اژدھوں کو کرنٹ لگایا ہے اور وہ یک دم جاگ گئے ہیں۔ جس پھرتی اور سفاکی سے اژدھوں نے بکری کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو نگلا وہ بیان نہیں کر سکتا۔ صاحب اس سارے منظر کو حد درجے دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ کہنے لگے کہ بالکل مت گھبراؤ! یہ اژدھے کھانا کھانے کے بعد پالتو جانور بن جاتے ہیں اور سوتے رہتے ہیں۔ ہم دونوں واپس مڑے تو صاحب نے صرف ایک فقرہ کہا، ڈاکٹر! تمہارا ملک بھی سانپ گھر جیسا ہی تو ہے!

Check Also

Baat Kahan Se Kahan Pohanch Gayi, Toba

By Farnood Alam