Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Rao Manzar Hayat
  3. Quwat e Iradi Mazboot Banaiye

Quwat e Iradi Mazboot Banaiye

قوت ارادی کو مضبوط بنائیے

31اکتوبر، 2003ء کو تیرہ سالہ Bethany Hamilton حسب معمول کوائی جزیرئے سے منسلک ساحل سمندر پر سرفنگ کے لیے نکلی۔ ہملٹن کی بہترین سہیلی آلانہ بھی اس کے ساتھ تھی۔ کوائی جزیرہ امریکا کی ریاست ہوائی میں واقع ہے۔ ہملٹن کو اوائل عمری سے سرفنگ کا شو ق تھا۔ عرض کرتا چلوں کہ سرفنگ ایک ایسا کھیل ہے جس میں انسان، پلاسٹک کے ایک ٹکڑے پر توازن قائم کرکے، سمندری لہروں کے زور پر بغیر گرے ہوئے ساحل تک پہنچتا ہے۔ پانی کی طاقتور لہروں کے ساتھ سفر کرنے کے لیے بہت زیادہ مشق درکار ہوتی ہے۔

ہملٹن پلاسٹک بورڈ پر لیٹی ہوئی، سمندری لہروں کا انتظار کر رہی تھی۔ اچانک چودہ فٹ لمبی ٹائیگر شارک نے اس پر حملہ کیا اور اس کا بایاں بازو اکھاڑ دیا۔ یہ ایک ہولناک منظر تھا۔ ہملٹن کے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ آلانہ نے اس کی مدد کی اور آہستہ آہستہ پلاسٹک بورڈ کو ساحل تک لے آئی۔ جب ہملٹن ولکوکس میڈیکل سینٹر پہنچی تو مرنے کے قریب تھی۔ ساٹھ فیصد خون بہہ چکا تھا۔ وہ بے ہوش تھی۔ اسے فوراً آپریشن تھیٹر منتقل کیا گیا اور حددرجہ ماہر سرجن نے اس کی سرجری کی۔ اس حادثے کی بدولت اس کا بایاں بازو مکمل طور پر ختم ہوگیا۔

ہملٹن کے سامنے اب دو راستے تھے۔ ایک تو یہ کہ معذوری کو اپنی قسمت سمجھ کر تمام عمر صدمے میں گزار دے۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ اپنے شوق یعنی سرفنگ کی تکمیل کرتی رہے جو ناممکن نظر آتا تھا۔ دو ہفتے کے قلیل عرصے میں ہملٹن کے سارے زخم بھر گئے۔ اس نے اب ایک ایسا پلاسٹک بورڈ بنوایا جس کو اپنے دائیں ہاتھ سے پانی میں چلا سکتی تھی اور صرف ایک بازو کے ساتھ اپنا توازن برقرار رکھ سکتی تھی۔ تمام لوگوں کا خیال تھا کہ ہملٹن اب کبھی سمندری لہروں کے مقابلے میں سرفنگ نہیں کر سکے گی۔ مگر وہ اس تیرہ سالہ بچی کی خود اعتمادی کی انتہاء کو نہیں سمجھتے تھے۔ 26نومبر یعنی شارک کے زخم کے صرف چھبیس دن بعد ہملٹن نے دوبارہ ساحل سمندر پر سرفنگ شروع کر دی۔ 10جنوری 2004کو اس نے سرفنگ کا پہلا مقابلہ جیتا۔ کیلیفورنیا کے سرف میوزیم میں، پلاسٹک کا وہ بورڈآج تک موجود ہے جس پر لیٹے ہوئے شارک نے ہملٹن کا بازو علیحدہ کر دیا تھا۔ اس چھوٹی سی بچی کی خود اعتمادی، اپنے آپ پر بھروسہ، مضبوط قوت ارادی اب ایک مثال بن چکی تھی۔ ہملٹن آج زندہ ہے۔ اس پر Soul surferنام کی ایک فلم بن چکی ہے۔

پوری دنیا میں وہ ایک رول ماڈل سمجھی جاتی ہے۔ امریکا کے تمام ٹی وی پروگرامز پر اس بچی نے آ کر لوگوں کو بتایا ہے کہ مضبوط قوت ارادی کیا چیز ہے اور اس سے ناممکن کو ممکن کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ ہملٹن نے ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کا عنوان Soul Surfer: A True Story of Faith، Family and Fighting ہے۔ اس بچی نے 2007 میں ایک ڈاکومنٹری بھی بنائی ہے جس میں ہمت اور جرأت کو مجسم طریقے سے بیان کیا ہے۔ قوت ارادی پر آج تک ہملٹن گیارہ کتابیں لکھ چکی ہے۔ موضوع صرف ذہنی کمزوری اور خوف پر قابو پا کر اپنی زندگی اپنے مطابق گزارنے کا چلن بتایا گیا ہے۔

ہملٹن آج قوت ارادی کی وہ تصویر ہے جس سے تمام دنیا سبق سیکھ سکتی ہے۔ اردگرد دیکھتا ہوں تو مجھے لوگ صرف اور صرف شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ کوئی حالات کا رونا رو رہا ہوتا ہے۔ کوئی کسی ذہنی یا جسمانی معذوری کو کوستا رہتا ہے اور کوئی بد قسمتی اور تقدیر کو لتاڑتا رہتا ہے۔ بہت کم لوگ ایسے نظر آتے ہیں جو قوت ارادی کو مضبوط کرکے، اپنے مسائل حل کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں حددرجے منفی رویے پنپ چکے ہیں۔ ضعیف العتقادی کا عالم دیکھیے کہ آج بھی ہم اپنے مسائل کو تعویذ دھاگوں اور جادو کے زیر اثر سمجھتے ہیں۔ لوگوں کی کثیر تعداد اپنی کوتاہیاں چھپانے کے بجائے، یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ان کے گھر کو تو بری نظر لگ گئی ہے۔ اس وقت ہر لحاظ سے ہمارے ہاں ہر سطح پر خود اعتمادی کا فقدان نظر آتا ہے۔ ہمارے کئی وزراء اعظم اور صدر ایسے بھی گزرے ہیں جنھوں نے نجومیوں اور موکلوں پر قابض پیروں کو ہر دم اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا۔

مجھے ایک سابقہ وفاقی وزیر نے بتایا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک وزیراعظم نے بنگالی جادو گر کو بنگلہ دیش سے بلوایا اور اس سے جادو ٹونے کروائے تاکہ ان کی وزارت عظمیٰ طویل ہو جائے۔ آج بھی ہمارے اکابرین کا یہی حال ہے۔ فکری شکستگی، جہالت اور ان کی ذاتی کمزوریاں، ان کے بقول ان کے مخالفین کے جادو ٹونے کے بدولت ہے۔ ذرا اسلام آباد کے قصر صدارت اور وزیراعظم ہاؤس کے ملازمین سے پوچھیئے کہ انھوں نے ہمارے اکابرین کی کیسی کیسی احمقانہ حرکات دیکھی ہیں؟ جب ملک کی قسمت کے مالک خود اعتمادی سے محروم ہوں تو لازم ہے کہ عوام بھی اسی طرح کے ہو جائیں گے۔ اوپر سے نیچے تک یہ معاملات مکمل طور پر یکساں ہیں۔

سوال یہ ہے کہ دوسروں کو اپنی ناکامیوں کا ذمے دار ٹھہرانے کے بجائے، اپنی قسمت کو کیسے بدلا جائے۔ قسمت کا لفظ اگر پسندیدہ نہیں ہے تو یہ کہہ لیجیے کہ مستقبل کو اپنے ہاتھ سے کیسے سنوارا جائے۔ جواب صرف اور صرف ایک ہے۔ اپنی قوت ارادی کو مضبوط سے مضبوط تر کریں۔ خود اعتمادی کو بڑھانے کے لیے بے شمار کتابیں اور طریقے موجود ہیں۔ کیونکہ ہم اپنے مسائل کو حل نہیں کرنا چاہتے اور ہمارے اندر پڑھنے لکھنے کا رجحان تشویشناک حد تک کم ہے لہٰذا یہ معاملات دیمک کی طرح عوام اور خواص کو کھاتے چلے جا رہے ہیں۔

خوداعتمادی کے فقدان نے، جعلی فقیروں، من گھڑت بابوں اورعاملوں کی چاندی کروا دی ہے۔ وہ دونو ں ہاتھوں سے لوگوں کی توہم پرستی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور خوب دولت کماتے ہیں۔ بلکہ یوں کہیے کہ وہ ہمارے مسائل کی ایسی ایسی بے تکی توجیہات پیش کرتے ہیں۔ جن سے مسئلے کا کسی قسم کا کوئی حل نہیں برآمد ہوتا۔ ہمارے ہاں اکثر خواتین ضعیف العتقادی کا شکار ہیں۔ مسئلہ صرف ایک ہے کہ ہمیں اپنے اوپر اعتماد نہیں ہے۔

اب میں تحقیق اور سائنس کی روشنی میں قوت ارادی کو مضبوط کرنے کے مختلف طریقوں پر آتا ہوں۔ پہلی بات یہ کہ آپ جہاں بھی ہیں اور جس حالت میں بھی ہیں، ورزش کرنا شروع کریں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اپنی عمر کے حساب سے ورزش کو زندگی کا لازمی جزو بنا لیجیے۔ اگر گھر کے نزدیک کوئی پارک ہے تو اس میں جاگنگ یا واک کرنا اپنے اوپر فرض سمجھ لیجیے۔ اگر گنجان آبادی میں رہتے ہیں تو اپنے چھوٹے سے صحن یا چھت پر چکر لگانے شروع کر دیں۔

یہی آپ کی ورزش ہے۔ ورزش سے آپ کو بے انتہا ذہنی فائدہ ہوگا۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اپنی نیند کو سات سے نو گھنٹے کر لیجیے۔ قدرت نے نیند کے دوران، انسانی جسم میں ہر طرح کی ہیلنگ پراسس مقید کیا ہوا ہے۔ نیند پر توجہ دیجیے اور کوشش کیجیے کہ آپ کی نیندبھرپور ہو اور حالات کے حساب سے سات سے نو گھنٹے تک طویل ہو۔ تیسرا نکتہ حد درجے اہم ہے۔ ذہنی دباؤ کو کم کرنا سیکھئے۔ آج تک مجھے ایک بھی ایسا مرد اور عورت ایسے نہیں ملا جو کسی نہ کسی طرح کے ذہنی دباؤ کا شکارنہ ہو۔ ذہنی دباؤ سے لڑنا سیکھئے۔ ورزش اور معقول نیند ذہنی دباؤ کو کم کر سکتی ہے۔ یاد رکھیئے کہ دنیا میں کوئی ایسی دوائی نہیں ہے۔ جو ذہنی دباؤ کم کرنے کی تربیت دے سکے۔

یہ کام آپ نے خود کرنا ہے اور اس کا واحد طریقہ ذہنی دباؤ کے سامنے کھڑا ہو کر اسے حل کرنا، کم کرنا، اور پھر اسے ختم کرنا ہے۔ ہاں ایک اور نکتہ۔ اپنے اوپر بھروسہ کرنا سیکھئے۔ آپ بذات خود اپنے سب سے بڑے دوست یا دشمن ہو سکتے ہیں۔ قوت ارادی کو بڑھاتے ہوئے اپنے اوپر بھروسہ کیجیے۔ علاوہ ازیں، اپنے ہدف حاصل کرنے کے لیے منطقی دورانیہ ترتیب دیجیے۔ ہر انسان کے ذہن میں ایک ٹائم لائن ہوتی ہے۔ اپنی ٹائم لائن کو پہچانتے ہوئے ذاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک منصوبہ خود ترتیب دیجیے۔ کسی مدد کا انتظار نہ کیجیے۔

آپ کی مضبوط قوت ارادی ہر مسئلے کا فطری جواب ہے۔ یاد رکھیئے کہ یہ قوت صرف اور صرف آپ کے پاس ہے۔ کوئی دوسرا عنصر یا شخص آپ کے ذاتی مسائل حل نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے قدرت نے صرف اور صرف آپ ہی کا انتخاب کیا ہے۔ لہٰذا اپنی قوت ارادی کو مضبوط تر سطح پر لے کر جائیے۔ اگر تیرہ سال کی بچی ہملٹن شارک کے جان لیوا حملے کے بعدزندہ رہ سکتی ہے اور ساتھ ساتھ اپنے کھیل میں نئے ریکارڈ قائم کر سکتی ہے۔ تو یقین فرمائیے کہ یہ فکری اور ذہنی مضبوطی آپ کے پاس بھی موجود ہے۔ اردگرد دیکھنے کے بجائے، مستقبل کو اپنی مضبوط قوت ارادی سے منسلک کر دیجیے اور پھر دیکھیے قدرت آپ کے ساتھ کس مضبوطی سے آن کھڑی ہوتی ہے!

Check Also

Platon Ki Siasat Mein Ghira Press Club

By Syed Badar Saeed