پیر کاکی تاڑ
نثار بٹ، ملک کے مایع ناز کامیڈین تھے۔ دو مرتبہ ان کے شو دیکھنے کا اتفاق ہوا تو حیرت زدہ رہ گیا۔ بٹ صاحب اپنے منہ سے 51سازوں کی آواز نکالتے تھے۔ انسان فرق ہی نہیں کر سکتا تھا کہ ساز بج رہا ہے یا یہ آواز انسان کی ہے۔ مگر اس ہردرجہ سنجیدہ مگر مزاحیہ نظر آنے والے ادا کار کی ایک جہت اور بھی تھی۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ محترم صفدر شاہ المعروف پیر کاکی تاڑ بازار حسن لاہور میں رہتے تھے۔
ان کی زندگی کا مقصد معاشرے میں پسے ہوئے لوگوں کی فی سبیل اللہ خدمت تھی۔ وہ خواتین جن کو دن کی روشنی میں کوئی پہچاننا پسند نہیں کرتا تھا، صفدر شاہ ان کے مسائل حل کیا کرتے تھے۔ ایک دن بغیر کسی واقفیت اور تعارف کے، صفدر شاہ صاحب، نثار بٹ کے آفس آ گئے۔ کہنے لگے کہ میرے مرشد کا قصور میں عرس ہے اور آپ نے طائفہ لے کر وہاں جانا ہے۔ تمام تفصیلات پوچھنے کے بعد، نثار بٹ نے پندرہ ہزار روپے کا تخمینہ بنایا۔ صفدر شاہ کہنے لگے کہ میں تو آپ کو ایک پیسہ بھی نہیں دوں گا اور میرے مرشد کے دربار پر ہر صورت جانا ہوگا۔
نثار بٹ اس وقت اپنے فن کی بلندیوں پر تھا اور وہ یہ تقاضا ایک اجنبی انسان سے سن کر ششدر رہ گیا۔ درویش کہنے لگا، کہ ہاں ایک صورت ہے جس سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ آپ وضو کریں اور خدا کے دربار میں ایک دعا کریں اور اس کو کاغذ پر لکھ کر اپنی جیب میں ڈال لیں۔ اگر دوران سفر یا دربار پر یہ دعا قبول نہ ہو تو میں کسی نہ کسی طریقے سے آپ کو رقم فراہم ضرور کروں گا۔ یہ اللہ تعالیٰ سے سودا کرنے والی بات ہے۔ نثار بٹ مزید حیران ہوگیا۔ اس کو انکار کی جرأت نہیں ہوئی۔
وقت مقررہ پر ایک فلائنگ کوچ میں اپنے طائفے کو لے کر لاہور سے قصور روانہ ہوا۔ راستے میں موبائل پر اسے ایک قریبی دوست کا فون آیا۔ بتانے لگا کہ لاہور میں دو گروہوں کے درمیان تصفیہ ہوگیا ہے اور آپ فوری طور پر جہاں بھی ہیں واپس آ جائیں۔ نثار بٹ نے گزارش کی قصور جا رہا ہوں اور کل واپس آؤں گا۔ اس کے بعد جیب سے کاغذ نکالا اور اپنے ساتھیوں کو وہ دعا دکھائی جو اس نے لکھ کر رکھی تھی۔ اس کی دعا قصور میں دربار پر جانے سے پہلے قبول ہوگئی۔ نثار بٹ باقاعدہ طور پر سخت حیران تھا۔ بعدازاں وہ، صفدر شاہ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگیا۔
بالکل اسی طرح، ایک دن صفدر شاہ، بٹ صاحب کے دفتر آئے۔ کہنے لگے کہ ایک انتہائی مسکین اور غریب آدمی فوت ہوگیا ہے۔ اس کے کفن دفن کے انتظام کے لیے کچھ پیسے چاہئیں۔ مجھے اپنے کچھ ان دوستوں کے پاس لے جاؤ جو خدا کی راہ میں خرچنے پر ہاتھ نہیں کھینچتے۔ نثار بٹ، بڑے مان سے، پیر کاکی تاڑ کو لاہور کے دو امیر لوگوں کے پاس لے گیا۔ دونوں جگہ تقاضا کیا کہ ایک غریب آدمی کے کفن دفن کے لیے پیسے چاہئیں لہٰذا مدد کی جائے۔ مگر بات بن نہ سکی۔ گلبرگ کے ایک شاندار گھر سے نکلتے ہوئے، صفدر شاہ نے کہا کہ بٹ صاحب آئیں، میں آپ کو بتاتا ہوں کہ خدا کی راہ میں خرچنے والے لوگ کہاں رہتے ہیں۔ نثار بٹ کو بازار حسن لے آئے۔ شام کا وقت تھا۔ ایک طوائف کے کوٹھے پر گئے تو وہاں ایک سنجیدہ عمر کی عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ صفدر شاہ نے وہی تقاضا کیا جو لاہور کے سیٹھوں سے کیا تھا۔
عورت گھر کے اندر گئی اور نوٹوں کی ایک تھیلی لے کر شاہ صاحب کے قدموں میں رکھ دی۔ کہنے لگی کہ اس وقت میرے پاس صرف یہی پیسے ہیں اور حکم کے مطابق میں یہ کفن دفن کے لیے آپ کے حوالے کرتی ہوں۔ شاہ صاحب ہنسنے لگے۔ پیسوں کی تھیلی اسی بالاخانے میں عورت کو واپس کی اور سیڑھیوں سے نیچے اتر آئے۔ بازار حسن ہی میں تھوڑا سا آگے چلنے کے بعدایک اور بالا خانے پر چلے گئے۔
وہاں ایک نوجوان طوائف بیٹھی ہوئی تھی۔ اس سے بھی یہی تقاضا کیا۔ نوجوان لڑکی نے اپنے کانوں سے سونے کی بالیاں نکالیں اور شاہ صاحب کے حوالے کر دیں۔ بتانے لگی کہ میرے پاس اس وقت پیسے نہیں ہیں۔ آپ یہ بالیاں فروخت کرکے اس غریب آدمی کی تدفین کر دیجیے۔ نثار بٹ کہتا ہے کہ میرے سامنے پیر کاکی تاڑ مسکرائے اور دونوں بالیاں اس خوبرو لڑکی کو واپس کر دیں۔ کہنے لگے، نثار! کیا تمہیں اب پتا چلا کہ اللہ کی مخلوق کو راضی کرنے والے اصل لوگ کہاں ہوتے ہیں۔ نثار بٹ یہ واقعہ سناتے ہوئے ہمیشہ آبدیدہ ہو جاتا تھا۔
بالکل اسی طرح ایک دن شاہ صاحب، بٹ صاحب کے دفتر آئے اور کہنے لگے کہ چار طرح کے مختلف کھانے منگواؤ۔ پوچھے بغیرکھانے منگوا لیے گئے۔ اس کے بعد تقاضا ہوا کہ جاؤ نیچے چار مفلوک الحال غریب آدمی تلاش کرکے لاؤ۔ نثار خود نیچے گیا۔ اسے چند اجڑے ہوئے بندے نظر آئے۔ انھیں اوپر لے کر آیا تو شاہ صاحب نے ان چاروں بندوں کو حد درجے ادب سے کھانا پیش کیا۔ سیر ہونے کے بعد، وہ لوگ سیڑھیوں سے نیچے اترگئے اور بھیڑ میں غائب ہو گئے۔
نثار کے ذہن میں آیا کہ صفدر شاہ سے ابتدائی سی ملاقات ہے۔ شاید ان کے پاس پیسے نا ہوں۔ اس نے جیب سے کچھ روپے نکالے اور پیر کاکی تاڑ کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ شاہ صاحب ہنسنے لگے اور کہا کہ آؤ مجھے نیچے تک چھوڑ کر آؤ۔ میں تمہارا نذرانہ قبول نہیں کر سکتا۔ نیچے اترے تو نثار بٹ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ صفدر شاہ ایک انتہائی قیمتی گاڑی کے اندر اس سے ملنے آئے تھے۔ حقیقت میں انھیں پیسوں کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ نثار بٹ کی یہ تمام باتیں آج بھی محفوظ ہیں اور آپ یوٹیوب پر اس کی تصدیق فرما سکتے ہیں۔
اگلی بات بھی حد درجے عجیب سی ہے۔ صفدر شاہ پوری عمر بازار حسن میں رہے اور اپنے آپ کو لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے وقف کر دیا۔ مگر بہت ہی محدود لوگ جانتے تھے کہ ان کا بازار حسن سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ موٹر وے پر موجود للٰہ قصبے سے تین چار کلومیٹر دور ایک گاؤں کے معزز زمیندار تھے۔ ایک دن اپنے ایک ڈاکٹر دوست کے ساتھ آبائی گاؤں گئے۔ ان کا دوست حیران تھا کہ یہاں کیوں آئے ہیں۔ گاڑی سے نکل کر احباب کو بتانے لگے کہ میرے انتقال کے بعد میری تدفین اسی جگہ پر کرنا۔ جس دن مجھے دفن کیا جائے گا، اس دن شدید بارش ہوگی اور ہاں، دنیا سے رخصت ہونے کا وقت دو سال کے بعد آئے گا۔
ڈاکٹر نے یہ بات سنی ان سنی کر دی اور دل میں ہنسنے لگا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک انسان کو اپنی موت کا دن بھی پتہ ہو اور یہ بھی معلوم ہو کہ اس دن بارش ہوگی۔ ٹھیک دو سال بعد پیر کاکی تاڑ کا انتقال ہوا۔ دوست احباب جس میں وہ ڈاکٹر بھی شامل تھا، ان کا جسد خاکی لے کر للٰہ آئے۔ ان کے گاؤں کے قبرستان میں تدفین ہوئی تو شدید بارش ہونے لگی۔ ڈاکٹر کے ذہن میں ایک دم پیر کاکی تاڑ کے وہ لفظ گونج اٹھے جس میں موت کا وقت اور موسم بتایا گیا تھا۔ وہ زارو قطار رونے لگا اور اس نے یہ تمام واقعہ دوسرے لوگوں کو بتایا۔
اگر غور سے دیکھا جائے، تو صفدر شاہ ایک ملامتی صوفی تھے جو اپنا بھید کسی پر کھولنے سے گریز کرتے تھے۔ روایت ہے کہ وہ بازار حسن میں طوائفوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش میں جتے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کا حلقہ ارادت بہت وسیع تھا۔ لوگ دور دور سے ان کے پاس حاضر ہوتے تھے اور دعا کی درخواست کرتے تھے۔ روایت یہ بھی ہے کہ ان کے نام میں کاکی کا لفظ حضرت بختیار کاکی کی نسبت سے شامل تھا۔ وہ دوپہر یا شام کو پورے بازار حسن میں چکر لگایا کرتے تھے اور لوگ ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے رہتے تھے۔
اسی وجہ سے ان کا نام بگڑتے بگڑتے کاکی تاڑ بن گیا۔ جس کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بازار حسن کی لڑکیوں کو بڑے غور سے دیکھتے تھے۔ مگر ایک فکر یہ بھی موجود ہے کہ تاڑنے کا اصل مقصد، اس انسان کو اپنی گرفت میں لینا ہوتا تھا اور پھر اس کی باطنی صفائی پر کام کیا جاتا تھا۔ پیر کاکی تاڑ نے ان گنت طوائفوں کی شادیاں کروائیں، سیکڑوں بن باپ کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ اس علاقے میں ایک سند بن کر زندہ رہے۔
خدا کی بابرکت ذات کس انسان کو قربت عطا فرماتی ہے، اس کا ظاہری طرز عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اپنے آپ کو ملامت کا نشان بنا کر پیرکاکی تاڑ، حضرت بلھے شاہ کی اس لڑی کے درویش تھے جو دنیا میں خدا کے اذن سے، راندہ درگاہ لوگوں کی خدمت پر مامور تھے۔ اس طرح کے لوگ ہر دور میں، ہر قصبے میں اور ہر معاشرے میں بلا تخصیص پائے جاتے ہیں۔ مسئلہ صرف اور صرف پہچاننے کا ہے!