کدی کلیاں بہہ کے سوچ تے سہی
آخر یہ بابے، درویش، صوفیا اور ولی کون لوگ ہوتے ہیں؟ کبھی کبھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حددرجہ پراسرار افراد ہیں۔ کبھی لگتا ہے کہ یہ پاکھنڈی اور فریبی ہوتے ہیں، جو لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں لیکن اکثر اوقات یوں بھی لگتا ہے کہ انسانوں پر ان کا مثبت اثر حددرجہ زیادہ ہے اور یہ انسانیت کی بہتری کی طرف گامزن ہیں۔
یہ درویش اخلاقی نظام کی وہ خوبصورتی ہے جو خوشبو اور عشق الٰہی سے معمور ہیں۔ ان کا کام ہے کہ عام لوگوں کو دین اور ایک دوسرے سے جوڑ کر رکھیں اور خود معتوب نظر آئیں۔ سائنس کا طالب علم ہوں۔ عمل اور ردعمل کا شکار انسان۔ مگر کیا کروں کہ روحانیت کا یہ پہلو مجھے باندھ کر رکھتا ہے۔ بہت کوشش کرتا ہوں کہ ان صاحب نظردرویشوں سے کوسوں دور رہوں مگر دل، دماغ اور روح ان صوفیا کی طرف کھنچی چلی جاتی ہے۔
ویسے مجھے خود سمجھ نہیں آتا کہ یہ بابے کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی صورت میں مجھے کیوں ملتے رہتے ہیں، عقل یہ ماجرا سمجھنے میں ساتھ ہی نہیں دیتی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ "عیار" بابے، آپ کا سب کچھ لوٹ کر اپنے چولے کی جیب میں ڈال لیتے ہیں۔ پھر غائب ہو جاتے ہیں، جب آپ کو رہنمائی کی ضرورت ہو تو یہ دھم سے آ پ کے سامنے آجاتے ہیں۔
آپ کا کل سرمایہ لوٹا دیتے ہیں اور وہ بھی سود سمیت۔ ان میں سے ایک بابا جی یعنی قادری صاحب تو اس قدر سختی فرماتے تھے کہ اگر آپ وضو کے بغیر ان کی محفل میں چلے گئے تو وہ ناراض ہو جاتے تھے۔ معلوم نہیں انھیں کیسے پتہ چل جاتا تھا کہ فلاں شخص وضو کے بغیر آیا ہے۔ حکم دیتے کہ جاؤ بیٹا! وضو کرکے آؤ۔ دراصل یہ "بابے" جسم اور روح کی پاکیزگی کو دور سے محسوس کر لیتے ہیں۔ یہ صرف انسانوں ہی نہیں ہر مخلوق کو متوجہ کرتے ہیں۔ ایک دن قادری صاحب کی خدمت میں دوپہر کو حاضر ہوا۔
ان کا ملازم سودا سلف لے کر سائیکل پر گھر آ رہا تھا۔ اس دن ملازم کا رویہ عجیب سا تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ کچھ چھپا رہا ہے۔ سائیکل روک کر کہنے لگا، ڈاکٹر صاحب! اگر آپ کو یہ معلوم ہو جائے کہ قادری صاحب کے گھر کے درختوں پر کون کون سی مخلوق رہتی ہے اور وہ کیا کیا کرتی ہے تو یقین مانیے آپ ڈر جائیں گے"۔ اس کی باتوں کو سنی ان سنی کرکے قادری صاحب کے پاس پہنچا، موٹی سی عینک لگا کر اخبار پڑھ رہے تھے۔
ابھی ملازم نے انھیں کچھ نہیں بتایا تھا، قادری صاحب بولے، ڈاکٹر! ہمارے چاروں طرف اللہ کی ہر قسم کی مخلوق موجود ہوتی ہے۔
بعض غیرمرئی ہیں، ہر کوئی اسے دیکھ نہیں پاتا۔ مگر اللہ توفیق دے تو نظر آجاتی ہیں، تب یقین کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ میرا ذہن بھک سے اڑ گیا۔ قادری صاحب کو کیسے معلوم ہوا کہ میری اور ان کے ملازم کی کیا بات ہوئی ہے، بہرحال یہ ماجرا سمجھ سے بالاتر تھا۔ میں نے سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ کیونکہ انسانی عقل بہت جلد آپ کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ ویسے بھی سلوک اور عشق کی منزل پر دلیل اور منطق کام نہیں کرتی۔
ہاں ایک واقعہ عرض کرتا چلوں۔ میرا ایک ڈاکٹر دوست امریکا سے پاکستان آیا ہوا تھا، وہ عجیب سا کردار ہے، سال کے آخر میں سانتا کلاز بن کر بچوں میں تحفے تقسیم کرتاہے۔ امریکا میں اپنی تنخواہ کا بیشتر حصہ غریب لوگوں کے علاج پر خرچ کر دیتا ہے، بتاتا ہے کہ امریکا میں بہت غربت ہے۔
اگر کسی کے پاس علاج کے لیے انشورنس نہیں ہے تو وہ برباد ہو جاتا ہے۔ یہ ڈاکٹر دوست، اپنی دولت کا معقول حصہ انھیں لوگوں پر خرچ کرتا ہے جو انشورنس نہ ہونے کی وجہ سے اپنا علاج معالجہ کرانے سے قاصر ہیں۔ حددرجہ تعلیم یافتہ انسان ہے۔
جب بھی آتا ہے تو پاکپتن میں بابا فرید کے مزار پر ضرور حاضری دیتا ہے۔ میں اس کے ساتھ آج تک دربار بابا فرید نہیں گیا۔ پچھلی بار آیا تو حسب معمول باباجی کے مزار پر حاضری دینے گیا۔ وہاں موجود ایک فراش نے اسے روک لیا۔ بتانے لگا کہ زیارت کا وقت ختم ہو چکا ہے، آپ کل تشریف لایئے گا۔ ڈاکٹر مایوسی کے عالم میں مزار سے متصل مسجد میں نفل پڑھنے چلا گیا۔ عبادت کے دوران ایسے لگا کہ کوئی اسے بتا رہا ہے کہ فوراً واپس جاؤ، بابا جی انتظار کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر اسے اپنا وہم سمجھا، مگر توقف کے بعد مزار پر چلا گیا۔ وہاں وہی فراش اس کا انتظار کر رہا تھا۔ کہنے لگا کہ فوری طور پر مزار پر جاؤ اور دعا پڑھ لو۔ ڈاکٹر اطمینان سے بابا فرید کی قبر پر گیا، فاتحہ پڑھی، دعا کی اور خاموشی سے واپس آ گیا۔
اس واقعہ کا ذکر جب اس نے مجھ سے کیا تو میں بھی ششدر رہ گیا۔ یہ کیسے ممکن ہے، مزار کی صفائی پر مامورانسان، پہلے اسے زیارت سے روک رہا ہو، تھوڑی دیر کے بعد وہی شخص انتظار کر رہا ہو کہ فوراً آؤ اور مزار پر حاضری دو۔ میرا یہ دوست امریکا کے کامیاب ترین ڈاکٹرز میں سے ایک ہے، اس کے پاس اس واقعہ کا کوئی عقلی جواز نہیں ہے اور نہ ہی میرے پاس۔ ڈاکٹر نے ہنستے ہوئے کہا کہ شاید بابا جی، کوئی فہرست بنا کر رکھتے ہیں کہ کس کو اندر آ کر ملنے کی اجازت ہے اور کس کو منع کرنا ہے۔
خیر میں نے اس پر سوچنا بالکل چھوڑ دیا۔ کیونکہ یہ عشق کی منزلیں ہیں۔ وارفتگی اور محبت کے ان قافلوں کے مسافر، عام معاملات سے برتر ہیں۔ میں نے ان معاملات پر سوچنا اور سمجھنا چھوڑ ا تو کچھ کچھ سمجھ آنے لگ گیا ہے۔ عجیب سی ذہنی کیفیت ہے جو نظر آتا ہے وہ مکمل طور پر سمجھ نہیں آتا اور جو تھوڑا سا سمجھ آتا ہے وہ بالکل نظر نہیں آتا۔ معلوم نہیں یہ گورکھ دھندا کیا ہے۔
ویسے یہ درویش اور بابے ہوتے ضرور ہیں۔ اور ہمارے اردگرد ہی موجود ہوتے ہیں۔ ان کو پہچاننے کے لیے دو آنکھوں کی نہیں بلکہ گیان کی تیسری آنکھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب یہ تیسری آنکھ سائنس کے اصولوں کے تو خلاف نظر آتی ہے مگر اس کی موجودگی سے انکار ناممکن ہے۔ یہ وجدان کی ابتداء ہے۔
عقل سے آگے کا معاملہ ہے۔ انھیں دلیل کی کسوٹی پر پرکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ صوفی بزرگوں کی ایک اور بات سمجھنے سے قاصر ہوں۔ ان کی باتیں اور شاعری اتنی لافانی کیوں ہے۔ یہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید بالادستی کی طرف گامزن ہو جاتی ہے۔
آخر ان کے کلام میں اتنی طاقت کیوں ہے کہ الفاظ وقت سے ماورا ہو جاتے ہیں۔ جب بھی اسے پڑھا جائے تو اس کا مزا پہلے سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ یہ درویش ایسا پختہ اور طاقتور کلام کیسے لکھ لیتے ہیں۔ یہ خود لکھتے ہیں یا ان سے لکھوایا جاتا ہے۔ بالکل معلوم نہیں۔ پر ان کا عارفانہ کلام ہر لحاظ سے فقید المثال ہوتا ہے۔ ذرا غور فرمایئے، آج سے صدیوں پہلے حضرت بابافرید کیا فرما رہے تھے:
ویکھ فریدا مٹی کھلی
مٹی اتے مٹی ٹلی
مٹی ہسے مٹی رووے
انت مٹی دا مٹی ہووے
تن ہانڈی وچ ہجر مصالحہ
تے اتے لون صبر دا پایا
غلام فریددا میں تے مر گئی آں
تینوں اجے سواد نہ آیا
ذرا یہ بھی دیکھیے۔
دوزخ کے دروازے کی کنجی، نفس کی مراد حاصل ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
عبات توبہ کے بغیر درست نہیں ہوتی کیونکہ یہ مقام ابتداء ہے اور بندگی مقام انتہا۔
صوفی شیخ بندوں کی روحوں کے طبیب ہوتے ہیں۔
بلھے شاہ کیا کمال بات فرماتے ہیں:
(1) ہر کوئی یار نہیں ہوندا بلھیا
کدی کلیاں بہہ کے سوچ تے سہی
(2) ہر خون وچ وفا نہیں ہندی بلھیا
نسلاں ویکھ کے یار بنایا کر
اب خود بتایئے کہ آگے میں کیا لکھوں۔ کیونکر لکھوں۔ قلم کی بھی تو ایک حد ہوتی ہے۔