Pehla Ghair Mulki
پہلا غیر ملکی

اوست کامن گورد کا ترجمہ کمان کی شکل میں پھیلے پہاڑوں کے درمیان شہر ہے، مورخہ 12 اگست 2000 ہمارا یہاں دوسرا دن تھا، پچھلی رات ایوانا سے کلب میں ملاقات ہوئی تھی، اگلے دن ملاقات کے بعد سے اب تک وہ مجھے شہر دکھا رہی تھی، اسکی سہیلی مرینہ نے دنیا کی سب سے قدیم تازہ پانی کی جھیل زیسان بارے بتایا کہ ستر ملین سال پرانی ہے تب سے وہ علاقہ دریافت کرنے کی بے چینی شروع ہوگئی تھی، وہاں جانے کیلئے پرمٹ کی ضرورت تھی اور یہ پرمٹ تین دن بعد ملتا، مرینہ نے مچھلی فروش ساشا کی مدد سے ہمارے وہاں جانے کا انتظام کر دیا تھا، وہ ہر دوسرے دن وہاں سے تازہ مچھلی خریدنے جاتا تھا، ایوانا اور میں اس کے ہمراہ جیپ میں نکلے تھے، اب جیپ ایک گاؤں میں رکی تھی جہاں ہم اس کے اسسٹنٹ ایگور کے ٹرک کا انتظار کر رہے تھے۔
ساشا گاؤں کے اکلوتے کیوسک میں داخل ہوگیا اور میں اردگرد کا جائزہ لینے نیچے اترا، ہالیووڈ کی فلموں جیسا منظر تھا، ایک جیسے لکڑی کے بنے گھر، اکلوتا بازار آگے جاتا نظر آیا، چند لمحات بعد کیوسک کا مالک باہر نکلا، اجنبی غیر ملکی کو دیکھ کر باچھیں پھیلائے اور بانہیں کھولے میری طرف بڑھا، اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ کوئی غیر ملکی دیکھا تھا، پیچھے پیچھے اس کی بیوی بھی تھی، وہ بہت تپاک سے ملے، رسمی کلمات کے بعد ان کے ہمراہ گاؤں کی اکلوتی مسجد کی طرف بڑھے۔
مسجد جیسی کوئی علامت نہ تھی، نہ مینار، نہ محراب، نہ گنبد، نہ لاؤڈ سپیکر، لکڑی سے بنے عام گھروں جیسا ایک گھر تھا، غیر ملکی مسلم مہمان کی آمد کی اطلاع امام صاحب تک پہنچ چکی تھی، وہ بذات خود استقبال کیلئے دروازے پر موجود تھے، امام صاحب نے اپنا نام رحیموف بتایا اور آگے بڑھ کر میرے ہاتھوں پر بوسہ دیا، میں سمٹ کر پیچھے ہٹا "دیکھیں، امام صاحب، آپ میرے لئے بہت قابل احترام ہیں، آپ مجھے گنہگار مت کریں "، اما م صاحب ہمیں مسجد کے اندر لے گئے، زمینی فرش پر دوہرا قالین بچھا تھا، دیواروں پر بھی قالین آویزاں تھے، یہ مسجد ایک وسیع کمرے پر مشتمل تھی، واش روم غالباََ ً عقبی سمت واقع تھا، چند بچے زمین پر بیٹھے تلاوت کر رہے تھے، یہ حفظ کرنے والا گروہ تھا، البتہ قرآن ان کے ہاتھوں میں نہیں تھا، استفسار پر امام نے بتایا "میرا دادا حافظ قرآن تھا، اس نے میرے والد کو قرآن حفظ کروایا اور میرے والد نے مجھے، ہم نسلوں سے اس مسجد کے امام ہیں، کیمونسٹ دور میں مذہبی عبادات و تبلیغ پر کڑی پابندی تھی، اس حکم عدولی کے باعث بہت افراد قتل ہوئے، ہر مذہبی عبادت گاہ سے قرآن، بائبل و دیگر آسمانی صحیفے اٹھا لئے گئے، جن چند لوگوں نے قرآن حفظ کر رکھا تھا وہ چوری چھپے اسے نسل در نسل منتقل کرتے رہے"۔
ہم آدھا گھنٹہ وہاں رکے، میں نفل ادا کئے، امام صاحب نے بہت ضد کی کہ ہم وہاں رکیں اور خدمت کا موقع دیں لیکن کمی وقت کے باعث معذرت کی کیونکہ ہم چاندنی رات میں دنیا کی سب سے قدیم جھیل کا نظارہ کرنا چاہتے تھے، باہر مسجد کے دروازے پر تمام گاؤں اکٹھا ہو چکا تھا، سب لوگ غیر ملکی مسلم مہمان کو دیکھنے کیلئے جوق در جوق امڈ آئے تھے، ہر کوئی مجھ سے مصافحہ کرنے یا بغل گیر ہونے کو بیتاب تھا، آگے بڑھنے میں پہل کی تگ و دو کر رہا تھا، بہت دور دراز علاقہ، بجلی ناپید، دہائیوں سے باقی دنیا سے پرے رہنے والوں نے پہلی مرتبہ غیر ملکی دیکھا تھا، امام صاحب نے مقامی زبان میں سب کو ڈانٹا، غالباََ ً یہی کہا ہوگا "معزز مہمان کو تنگ مت کرو، لائن بنا کر ملاقات کا شرف حاصل کرو"، کیونکہ امام صاحب کی گرج دار آواز سنتے ہی سب خاموش ہو گئے تھے اور باری باری مجھ سے مصافحہ و معانقہ کرکے اپنے دلی جذبات کا اظہار کر رہے تھے، ایوانا مسکراتی ہوئی مجھے چھیڑ رہی تھی "مبارک ہو، تم وی آئی پی بن گئے ہو"، میں جوابی مسکرایا "مجھے خود ان لوگوں سے مل کر بہت خوشی ہو رہی ہے، بالکل ویسی خوشی جب ایک سال پہلے میں الماتی ایئرپورٹ پر اترا تھا اور ایک نئی دنیا میری منتظر تھی، یہ سفر مجھے ہمیشہ یاد رہے گا، درحقیقت میں خود کو مارکو پولو سمجھ رہا ہوں"۔
ایوانا نے مجھے چھیڑا "تمہارے نین و نقوش یونانی لوگوں جیسے ہیں "، میں جواب دیا "ارے نہیں، میرا ڈی این اے برصغیر کا مقامی ہے، میرے آباؤ واجداد شمالی ہندوستان یعنی موجودہ پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں "، گاؤں والوں کی خوشی دیدنی تھی، ایک مقامی لڑکے کا چہرہ شناسا محسوس ہوا، میں ذہن پر زور دیا کہ اسے پہلے کہاں دیکھا ہے، تب اس لڑکے نے جوش سے بتایا "میں آپ سے ہاتھ ملا کر دوبارہ سے لائن میں جا کھڑا ہوا تھا، پہلی مرتبہ کسی غیر ملکی سے ملنے کی خوشی مجھ سے سنبھالی نہیں جا رہی، "
تب یہ عقدہ کھلا کہ بہت سے افراد مجھ سے ہاتھ ملانے کے بعد دوبارہ سے لائن مین شامل ہو گئے تھے، ان کا دل توڑنا مناسب نہ سمجھا اور سب سب کے ساتھ ہاتھ ملایا۔
چند لڑکیوں پر مشتمل ایک گروہ سائیڈ پر کھڑا تھا، انہوں نے ہاتھوں میں کچھ تھام رکھا تھا، مقامی زبان میں آپس میں باتیں کرتی وہ میری طرف دیکھ کر ہنس رہی تھیں اور ہنسی چھپانے کی متواتر کوشش بھی کر رہی تھیں، امام صاحب مقامی زبان میں ان لڑکیوں سے مخاطب ہوئے، ایک لڑکی نے جواب دیا، امام صاحب نے اسے آگے آنے کا اشارہ کیا، لڑکی نے دونوں ہاتھوں میں ایک پیالہ تھام رکھا تھا، پیالے میں دودھ نما سیال مادہ تھا، مجھے شک ہوا تو امام صاحب بولے "یہ اس نسل کی گھوڑی کا دودھ ہے جو چنگیز خان کے زیر استعمال تھی، مہمانوں کی تواضع اس دودھ سے کی جاتی ہے، یہ حلال ہے، اسے پی سکتے ہو"، میں نے شکریہ بول کر اس لڑکی کے ہاتھ سے پیالہ تھام لیا، ایک گھونٹ پی کر دیکھا، ذائقہ مناسب ہی تھا، پھر ایک گھونٹ میں سارا پیالہ خالی کر دیا، گاؤں والوں نے خوش ہو کر تالیاں بجائیں، امام صاحب کے مطابق "ایک ہی گھونٹ میں پورا پیالہ پینا اس بات کی علامت ہے کہ مہمان کو گاؤں والوں کی مہمان نوازی پسند آئی ہے"، اسی اثناء میں ایک دوسری لڑکی نے دودھ کا پیالہ پیش کر دیا، میں نے امام صاحب کی طرف دیکھا تو وہ بولے"جو مہمان ایک گھونٹ میں گھوڑی کے دودھ کا پیالہ پیتا ہے، اسے احتراما ً یاک کا دودھ بھی پیش کیا جاتا ہے"، مرتا کیا نہ کرتا، یاک کے دودھ کا پیالہ بھی پینا پڑا، یہ ذائقہ کچھ عجیب سا تھا لیکن پئے بغیر جان خلاصی ناممکن نظر آ رہی تھی، غٹاغٹ دودھ پیتے دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ اللہ کرے گاؤں والوں کے ہاں کسی دوسری رسم کا رواج نہ ہو۔
دودھ پلائی کی رسم ختم ہوئی تو ایک مرتبہ پھر سے سب کا شکریہ ادا کیا، لیکن ابھی کچھ سرپرائز باقی تھے، گاؤں کی کل آبادی جو بمشکل سو نفوس سے بھی کم پر مشتمل تھی، ان کی اکثریت ہاتھوں میں تحفے اٹھائے آ رہے تھے، کسی کے ہاتھ میں ٹہنی سے توڑے تازہ سیب تھے، تو کسی کے پاس ناشپاتی، غرض یہ کہ ہر فرد کے ہاتھ میں غیر ملکی مسلم مہمان کو تحفہ دینے کیلئے کچھ نہ کچھ موجود تھا، میں ان کی مہمان نوازی پر خوش ہو کر مسکرایا، ایک سیب وصول کرکے ایوانا کی بڑھایا اور گاؤں والوں سے معذرت کرتے بولا "ہمیں آگے سفر پر جانا ہے، ہم اتنا سامان اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتے"، گاؤں والے بضد ہوئے کہ تحائف قبول کئے جائیں، امام صاحب نے معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے سامان جیپ میں رکھنے کا حکم دیا، ایک نے تو حد ہی کر دی وہ یاک کا چھوٹا بچہ اٹھا لایا اور ضد کی کہ اسے قبول کریں، اس کی معصومیت پر پیار بھی آ رہا تھا، جب میں معذرت کی تو وہ نمناک آنکھوں سے بولا "روز قیامت میں فخر سے کہہ سکوں گا کہ میں نے ایک معزز غیر ملکی مسلم مہمان کی خدمت کا شرف حاصل کیا تھا، شائد اس طرح میری بخشش ہو جائے"، اس کی معصومیت و سادگی دل موہ لینے والی تھی، قصہ مختصر یاک کا بچہ وصول کرکے امام صاحب کی خدمت میں پیش کرنا چاہا لیکن انہوں نے انکار کر دیا، مجبوراً وہ یاک کا بچہ بھی جیپ میں رکھوا دیا گیا۔
گاؤں والوں نے کھانے کی بہت ضد کی لیکن سب سے معذرت کرنا پڑی، ساشا کیوسک کے باہر جیپ میں ہمارا انتظار کر رہا تھا، ایگور کا ٹرک بھی پہنچ چکا تھا، اس میل ملاپ میں ایک گھنٹہ صرف ہو چکا تھا، ساشا نے ایگور کو کچھ ہدایات دیں، ہم دونوں کو جیپ میں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور جیپ سٹارٹ کر دی، جیپ کی پچھلی نشست پھلوں سے بھری پڑی تھی، ایوانا نے اپنے بیٹھنے کیلئے بمشکل جگہ بنائی، گاؤں سے نکلنے کے بعد اب ہم نان سٹاپ جھیل زیسان کی طرف گامزن تھے۔