مہنگا سبق

وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر سے ملاقات کے لیے آنے والے رہنماؤں کے ساتھ پریس بریفنگ ایک معمول کا عمل ہے۔ عموماً یہ عمل خوشگوار جملوں کے تبادلے اور باہمی معاملات پر محتاط رائے پر مبنی ہوتا ہے تاہم چند روز قبل یوکرائن کے صدر برزنسکی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات غیرمتوقع طور پر تلخی پر منتج ہوئی۔
اطراف سے تندوتیز جملوں کے تبادلے سے ریالٹی ٹی وی شو کا سماں بن گیا۔ تلخی اس حد تک بڑھی کہ سفارتی آداب دھرے کے دھرے رہ گئے۔ مہمان صدر کو پیغام دیا گیا کہ اب مزید پروگرام جاری رکھنا مشکل ہے۔ اسی لیے انھیں فوراً وائٹ ہاؤس چھوڑنا پڑا۔
ماڈرن تاریخ میں دو ملکوں کے سربراہان کے درمیان میڈیا کے سامنے اس قدر تلخی دیکھنے میں کبھی نہیں آئی لہٰذا یہ واقعہ پورے ورلڈ پریس پر کئی روز چھایا رہا۔ اس تلخ ملاقات کے آفٹرشاکس اسی دن سے روس یوکرین وار پر واضح دکھائی دینے لگے۔
یہ واقعہ حادثاتی تھا یا یوکرائینی صدر کو ڈیل کے لیے تیار کرنے کا سوچا سمجھا مذاکراتی انداز؟ زیادہ تر تجزیہ کاروں کو یہ سمجھنے میں دقت پیش آئی کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جو مؤقف اختیار کیا وہ ان کے پیشرو صدر سے بالکل مختلف تھا۔ روس یوکرین جنگ میں امریکا نے یوکرین کا بھرپور ساتھ دیا۔
یورپ نے بھی اتحادی ہونے کے ناطے روس یوکرین جنگ میں بھرپور تعاون کیا تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ورلڈ ویوو گزشتہ امریکی صدر جوبائیڈن سے بالکل مختلف ہے۔ ان کی شخصیت کا خاصہ ہے کہ وہ لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی بات بے باک انداز میں کہہ جاتے ہیں۔ رئیل اسٹیٹ میں ان کے کامیاب کیریئر میں مذاکرات یعنی Negotiation کی خاص مہارت کا بہت عمل دخل ہے۔
انھوں نے اپنی اس مہارت کا مظاہرہ اپنے گزشتہ دور صدارت میں بھی کیا اور موجودہ دور صدارت میں ہر محاذ پر کر رہے ہیں۔ مختلف ممالک اور تجزیہ کار ان کے خیالات کو امریکا کی جاری سفارتی و سیاسی پالیسیوں کے تسلسل میں دیکھنے پر مصر ہیں جب کہ امریکی صدر مصر ہیں کہ دنیا کے بہت سے ملکوں نے امریکا سے معاشی، تجارتی اور سیاسی فوائد سمیٹے ہیں لیکن امریکا کو مقابلتاً بہت کم فوائد حاصل ہوئے۔ ان کے خیال میں یہ نامناسب ہے۔ امریکا اب سب سے پہلے اپنے مفاد کو دیکھے گا۔ بہت ہو چکا، اب وہ امریکا کے لیے ایک نئے دور کا آغاز کر رہے ہیں۔
امریکا کے سب سے قریبی اتحادی یورپ اور پڑوسی میکسیکو اور کینیڈا سمیت بہت سے ممالک کو ان آؤٹ آف باکس پالیسیوں کے ساتھ قدم ملانے میں دقت پیش آ رہی ہے بلکہ فی الوقت ایک تجارتی اور سیاسی محاذ آرائی سرگرم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک روایتی سیاستدان نہیں ہے لہٰذا ان کا ورلڈ ویو بھی امریکا کے روایتی سیاستدانوں سے مختلف ہے۔ ان کا کاروباری پس منظر انھیں پیچیدہ معاملات کو کاروباری انداز میں جلد سلجھانے پر اکساتا ہے اور وہ پیچیدہ مسائل کو بھی ایک ڈیل کی طرح انجام تک پہنچانے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ عالمی سیاست میں دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کا یہ انداز ان کے اپنے پرایوں کے لیے غیرمتوقع اور حیران کن ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے خیالات میں بہت واضح ہیں لیکن دنیا کے زیادہ تر ممالک ان کے ان خیالات سے اتفاق نہیں کر پا رہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نزدیک امریکا کی کھلم کھلا، وافر اور آسان تجارتی رسائی کے سبب کینیڈا، میکسیکو، یورپ اور چین نے بے تحاشہ تجارتی اور معاشی فوائد سمیٹے ہیں، ان تمام ممالک کے ساتھ امریکا کا مسلسل بہت بڑا تجارتی خسارہ ہے۔ دوسری طرف امریکا میں مینوفیکچرنگ تیزی سے سکڑتی گئی ہے جس کے سبب روزگار کے مسائل شدید تر ہوتے گئے ہیں۔ ان کے نزدیک ورلڈ ٹریڈ آرڈر میں امریکا نے ماضی میں اپنی ترجیحات کا انتخاب درست نہیں کیا، ان کے نزدیک وقت آ گیا ہے کہ "امریکا فرسٹ" کا پیغام اور مرکزی نکتہ ہی امریکا کے لیے اپنے پڑوسیوں، اتحادی ممالک اور تجارتی پارٹنرز کے ساتھ ڈیل کرنے کا بنیادی عنصر ہونا چاہیے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ حکومت سنبھالتے ہی کینیڈا اور میکسیکو پر ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا۔ چین پر بھی کڑی تنقید کرتے ہوئے مزید ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔ جواباً ان ممالک نے بھی بہت سی امریکی مصنوعات پر ٹیرف عائد کر دیے۔ پس پردہ مذاکرات کے نتیجے میں کچھ صورتوں میں ٹیرف پر عملدرآمد میں کچھ التوا کیا گیا ہے تاہم دکھائی یہی دے رہا ہے کہ آیندہ چند ہفتوں میں ٹیرف عائد کر دیے جائیں گے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپ میں اسٹیل اور ایلومینیم پروڈکٹس سمیت دیگر کئی پروڈکٹس پر بھی ٹیرف عائد کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ان تمام اقدامات کا مقصد امریکا میں مینوفیکچرنگ کو ایک نئی زندگی اور ایک نیا آغاز دینا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد گلوبل ورلڈ آرڈر جس انداز میں تشکیل پایا، امریکا نے اس کی کمان سنبھالے رکھی۔ روس کی شکست وریخت کے بعد دنیا بہت حد تک یونی پولر ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی ایک نئے ورلڈ ٹریڈ آرڈر کا آغاز ہوا۔ امریکا دنیا کی سب سے بڑی تجارتی منڈی اور ٹیکنالوجی میں لیڈرشپ کے ناطے بالعموم ورلڈ ٹریڈ آرڈر کے خدوخال بنانے اور سنوارنے میں حرف آخر رہا تاہم گزشتہ تین دہائیوں میں ایشیا، یورپ اور بہت سے دیگر ممالک میں تیزی سے معاشی ترقی نے ورلڈ ٹریڈ آرڈر کا بیلنس تیزی سے تبدیل کیا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دوسرے دور صدارت میں جو نیا ورلڈ آرڈر تشکیل دینے کے خواہاں ہیں اس میں پاکستان جیسے ممالک کے لیے بھی سبق پنہاں ہے۔ سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ ملکوں کو اپنے مفادات کے لیے خود ہی کھڑا ہونا ہے، کوئی بھی دوسرا ملک کسی ملک کی معاشی، تجارتی، دفاعی یا سیاسی ضروریات کا تادیر بوجھ اٹھا سکتا ہے اور نہ ہی "ذمے دار" بن سکتا ہے۔ ملکوں کا اپنی سالمیت اور اپنے مفادات کے لیے خود پر بھروسہ کرنا ان کی سلامتی کے لیے لازم ہے۔
گزشتہ 50 سال سے پاکستان نے اپنے سیاسی، علاقائی اور دفاعی فیصلوں میں دیگر ممالک پر ضرورت سے زیادہ انحصار کیا بلکہ کئی صورتوں میں ان کے ساتھ غیرفطری اتحاد بھی کیے۔ پاکستان مختلف علاقائی قضیوں میں الجھنے کے باعث اپنے اندرونی مسائل پر توجہ نہ دے سکا۔ پاکستان میں سیاسی استحکام اس کا سب سے بڑا شکار ہوا۔
معاشی عدم استحکام اس کا لازم نتیجہ ثابت ہوا۔ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں سرمایہ کاری نجی شعبے کے بجائے دوست ممالک کی مرہون منت ہو کر رہ گئی ہے، مقامی سرمایہ کاری اور ایکسپورٹس پر جمود طاری ہے۔ آبادی کا پھیلاؤ ہر سال لاکھوں نوجوانوں کو لیبر مارکیٹ میں شامل کرتا ہے لیکن پاکستان کا سیاسی عدم استحکام اور معاشی عدم استحکام انھیں سیاسی امید اور باوقار روزگار دینے میں ناکام دکھائی دے رہا ہے۔
یوکرین نے جو سبق سیکھا ہے وہ مہنگا سبق ہے، پاکستان بھی یہ مہنگا سبق ماضی میں سیکھ چکا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ پاکستان اپنی ترجیحات میں خودانحصاری، اندرونی سیاسی اور معاشی استحکام کو بنیادی نکتہ بنائے تاکہ مستقبل میں ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہو، نہ کہ مانگے تانگے کے سرمائے سے معاشی استحکام کا بھرم بنانے میں لگا رہے۔