Monday, 17 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajjad Naqvi
  4. Jazbat Aur Ehsasat, Science Ke Aaine Mein

Jazbat Aur Ehsasat, Science Ke Aaine Mein

جذبات اور احساسات، سائنس کے آئینے میں

فطری طور پر انسان جذبات و احساسات کا مجموعہ ہے۔ یہ جذبات اور احساسات انسانوں کے رویے اور رد عمل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انسان کے خوش گوار مزاج اور اداس و غمگین کیفیات کا تعین انھی پر منحصر ہے۔ جذبات در اصل احساس کی ایسی صورتیں ہیں جو جسمانی رد عمل کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔ ان رد عمل کے محرکات خارجی حالات اور سماجی تعلقات ہوتے ہیں۔ جیسے کہ کسی راستے پر جاتے ہوئے ہمارے سامنے اچانک سانپ آجائے تو یہ منظر ہمارے ذہن میں شدید خوف کا احساس پیدا کرتا ہے جو جسمانی اعضا سے ظاہر ہوتا ہے مثلاََ کانپنا، دل کی دھڑکن کا تیز ہوجانا اور چہرے کے تاثرات بدل جانا۔ اسی طرح خوشی، غم، غصہ، حیرت اور اداسی جیسے جذبات کی اپنی اپنی متعلقہ کیفیات ہیں اور یہ ہمارے بنیادی یا ابتدائی جذبات کے نام سے منسوب ہیں جو ہماری بقا اور سماج میں استحکام کے لیے بہت اہم ہیں۔

سائنس کی روشنی میں اگر ان جذبات و احساسات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تشکیل اور فعال ہونے میں دماغ اور ذہن اہم کردار ادا کرتے ہیں اور یہ عصبی سائنس کا مطالعہ کہلاتا ہے۔ ہمارا دماغ ہمارے جسم کا مرکزی اور حیرت انگیز عضو ہے جو غور و فکر، فیصلہ سازی اور جذبات و احساسات کے پیدا ہونے کا ذمہ دار ہے۔ یہ اربوں عصبی خلیات (Neurons) پر مشتمل ہے۔

ہمارے پورے جسم میں حسی ریشوں کا ایک جال پھیلا ہوا ہے۔ جب ہم بیرونی یا اندرونی طرف سے کوئی محرک (Stimuli) محسوس کرتے ہیں تو یہ معلومات کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ معلومات کیمیائی و برقی لہروں کی صورت دماغ تک پہنچائی جاتی ہے اور دماغ کے حس مراکز میں معلومات پر عمل درآمد ہونے کے بعد جوابی عمل (Response) پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح دماغ میں ہمارے جذبات و احساسات کنٹرول ہوتے ہیں۔

ہمارے دماغ کا جو نظام جذبات کو کنٹرول کرتا ہے لمبک نظام کہلاتا ہے۔ یہ کئی دیگر نظاموں کا اجتماع ہوتا ہے۔ اس میں امیگڈیلا (Amygdala)، ہپو کیمپس (hippocampus) اور ہائیپو تھیلیمس (hypothalamus) کی ساختیں موجود ہیں۔ جن میں بیک وقت کئی سرگرمیاں وقوع پزیر ہو رہی ہوتی ہیں۔ یہ لمبک نظام (Limbic System) اور خود کار نظام (Autonomic system) ہمارے بنیادی جذبات سے متعلق ہیں اور ان بنیادی غیر ارادی حرکات و سکنات کا احاطہ بھی کرتا ہے جو ہماری بقا کے لیے ناگزیر ہیں مثال کے طور پر درد، غم و غصہ، جوش، خوف، جنسی احساس، جسم میں کیمیائی مادوں کو معتدل رکھنا، یادداشت، خوشبو، محبت و اطاعت اور مزاج کی مختلف کیفیات۔

جہاں ماحول، آب و ہوا، موسمی کیفیات، خوراک، مسکن اور حادثات و واقعات جیسے عناصر جذبات اور احساسات کو محرکات کے طور پر متاثر کرتے ہیں وہیں پر جذبات و احساسات میں تبدیلی پیدا کرنے کے لیے دماغ میں کیمیائی عصبی مرسل (Neurotransmitter) اور رطوبتوں (Hormones) کا اہم کردار ہوتا ہے۔ یہاں ہم بنیادی یا ابتدائی ان جذبات اور احساسات کی سائنسی حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں جن میں خوشی و مسرت، غم و غصہ، حیرت و خوف، جنسی احساس، بھوک کا احساس اور یادداشت کا احساس شامل ہیں۔ لیکن واضح رہے کہ ان سب میں دماغ کے لمبک نظام کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔

فرطِ خوشی اور غم کی سائنس: خوشی انسان میں پیدا ہونے والا مثبت جذبہ ہے۔ ہم خوش کیوں ہوتے ہیں؟ جب ہم کوئی کارنامہ انجام دیتے ہیں، کامیاب ہوتے ہیں یا ہمیں اپنے حق میں کوئی اہم خبر موصول ہوتی ہے تو ہمارے اندر خوشی کا احساس جنم لیتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی سماجی محرکات ہیں جو ہمارے لیے خوشی کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن عصبی سائنس کی نگاہ میں خوشی کا تعلق ہمارے جسم میں پیدا ہونے والے ان کیمیائی عصبی مرسل سے ہے جن میں سیروٹونین، ڈوپامین اور آکیسٹوسن جیسا ہارمون شامل ہیں۔

سیروٹونین ایک ایسا کیمیائی عصبی مرسل ہے جو ہمارے مزاج کو خوش رکھنے کے ساتھ ساتھ نظام انہضام، جسمانی کیمیائی تعاملات، یادداشت اور سیکھنے کے عمل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ خود اعتمادی اور حوصلہ بخش احساس کو ابھارتا ہے۔ راحت و مسرت کے حصول میں ڈوپامین ایک اہم ترین کیمیائی عصبی مادہ تصور کیا جاتا ہے۔ انسان جب کسی کام کو انجام دیتا ہے تو بدلے کے طور پر اسی مادے کا اخراج ہوتا ہے اس لیے اس کا انعامی نظام سے گہرا تعلق ہے۔ اس کے علاوہ وہ تمام کام جو ہمارے لیے خوشی کا سبب بنتے ہیں جیسے کھانا پینا، گانا سننا، رقص دیکھنا، سوشل میڈیا کا استعمال، کامیابی کا حصول ان کی سب کی انجام دہی میں ڈوپامین کی مقدار ہمارے دماغ میں خارج ہوتی ہے اور یوں ہمیں خوشی کا احساس ہوتا ہے۔

اسی طرح جب ہم کسی سے گلے ملتے ہیں یا ہاتھ ملاتے ہیں تو اس دوران آکیسٹوسن ہارمون خارج ہوتا ہے۔ اسے محبت کا ہارمون بھی کہا جاتا ہے۔ اس ہارمون کے سبب دو لوگ محبت کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں اور راحت محسوس کرتے ہیں۔ خواتین میں یہ بچے کے دودھ پینے کے دوران کثیر مقدار میں خارج ہوتا ہے اور یوں بچہ اور ماں دونوں نہ صرف راحت و مسرت محسوس کرتے ہیں بلکہ ان کے درمیان ایک گہرا رشتہ قائم و دائم ہوجاتا ہے۔ لہذا خوشی کی حقیقت اور سائنس میں سیروٹونین، ڈوپامین اور آکسی ٹوسن جیسے کئی اہم کیمیائی مادے کارفرما ہوتے ہیں۔ جو محبت و عشق جیسے جذبے قائم کرتے ہیں۔

خوشی کے متضاد جذبے افسردگی یا غم کی بات کی جائے تو غم دراصل کسی نقصان یا کسی شے کے کھو جانے کا نتیجہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی غم کی صورتیں ممکن ہیں۔ خوشی کی سائنس کے تناظر میں راقم نے جن عصبی کیمیائی مادے اور ہارمون کو نشان زد کیا تھا غم، افسوس یا پریشانی کی کیفیت در حقیقت انھیں عصبی کیمیائی مادے اور ہارمونز کے اخراج میں کمی کا نتیجہ ہے۔ جیسے کہ سیروٹونین اور ڈوپامین کی کمی سے ہمارے اندر گھٹن اور ذہنی تناو کا احساس نمایاں ہوتا ہے اور انسان بسا اوقات حالت اضطراب میں مبتلا ہوجاتا ہے اور یوں دماغ کئی ذہنی بیماریوں کی زد میں بھی آ سکتا ہے۔

حیرت کی سائنس: جب ہم کسی ایسے واقعہ یا حادثہ سے دو چار ہوتے ہیں جو ہماری توقع سے بالا تر ہو یا ہمارے ذہن وگماں میں بھی نہ ہو تو ہم حیرت انگیزی کے دام میں آجاتے ہیں اور کچھ لمحات کے لیے ہمارے اوپر سکتہ طاری ہوجاتا ہے۔ سائنس کی رو سے حیرت اس وقت ہوتی ہے جب دماغ میں داخل ہونے والی معلومات ہماری توقعات یا دماغی حسی مراکز میں محفوظ معلومات کے مطابق نہ ہو۔

عصببی سائنس کے مطابق حیرت کے دوران دماغ کے مختلف حصوں کو فعال کیا جاتا ہے جیسے کہ بادام نما دماغ امیگڈیلا جو جذبات کنٹرول کرتا ہے اور پریفرینٹل کورٹیکس جو فیصلہ سازی اور شعور کے کنٹرول میں مدد دیتا ہے۔ دماغ تیزی سے کارروائی انجام دیتا ہے اور ایک رد عمل شروع ہوجاتا ہے۔ جس میں آنکھوں کی سیاہی پھیل جاتی ہے، دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے اور ادراکی نظام فعال ہوجاتا ہے۔ اس دوران دماغ میں ڈوپامین اور ایک ہارمون نورپائنفرین یا نیورایڈرلین خارج ہوتا ہے جو ہونے والے غیر متوقع واقعہ کو سمجھنے میں توجہ مرکوز کرتا ہے۔

خوف کی سائنس: خوف ایک ایسے جذبے کا عمیق احساس ہے جو ہمیں کسی خطرے یا خوفناک واقعہ کی رونمائی پر ہوتا ہے اور یہ واقعات ہمیشہ ناپسندیدہ اور روح فرسا ہوتے ہیں۔ لیکن خوف کا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ ہمیں کسی خطرے کے خلاف نہ صرف تیار کرتا ہے بلکہ محفوظ بھی رکھتا ہے۔ خوف سے مراد ہمارے قبل شعور میں محفوظ شدہ وہ تجربات ہیں جن سے ہم نقصان اٹھا چکے ہیں۔ مثال کے طور پر جب کوئی بچہ پہلی دفعہ کسی انگارے کو پکڑتا ہے تو اس کی شدید تپش سے اس کا ہاتھ جل جاتا ہے اور یہ معلومات بچے کے ذہن میں طویل المعیاد یادداشت کی صورت محفوظ ہوجاتی ہے۔ لہذا آیندہ جب بھی وہ انگارے دیکھے گا تو اس کو پکڑنے میں خطرہ یا خوف محسوس کرے گا کیوں کہ وہ پہلے اس کیفیت اور تجربے سے گزر چکا ہے۔

اسی طرح خوف کی دیگر صورتیں ہیں اور خوف کئی قسموں کا ہوتا ہے جیسے اونچائی کا خوف، بہتے پانی کا خوف، تاریکی کا خوف، موت کا خوف، آسمانی بجلی کا خوف وغیرہ۔ اصطلاح میں اس کے لیے فوبیا کا لفظ برتاجاتا ہے۔ سائنسی لحاظ سے جب ہم کسی خطرے یا خوف کا سامنا کرتے ہیں تو یہ ہمیں ایک جسمانی رد عمل کے لیے متحرک کر دیتا ہے۔ بادام نما دماغ یا امیگڈیلا ہمارے نظام اعصاب کو متنبہ کرتا ہے اور خوف کے خلاف عمل در آمد شروع ہوجاتا ہے۔ اس دوران کارٹیسول (Cortisol) اور ہنگامی ہارمون ایڈرینا لین (Adrenaline) خارج ہوتے ہیں۔ جس میں ہماری سانس کی رفتار بڑھ جاتی ہے، دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے اور خون میں مخصوص تبدیلی اور تناو واقع ہوتا ہے جو ہمیں مقابلے کے لیے تیار کرتا ہے۔ یہاں ایک عمل لڑو یا بھاگ جاو (Fight or Flight) جاری ہوجاتا ہے اور ہم کس ایک حالت کو متخب کرتے ہیں۔

غصہ اور نفرت: غصہ اور نفرت شدید باہمی جذبے کا اظہار ہیں۔ غصے اور نفرت کی بہت سی وجوہات ہوتی ہے۔ ہر فرد کے لیے غصہ اور نفرت مختلف عوامل کے زیر اثر وجود میں آتا ہیں۔ کسی کے لیے غصہ کا محرک دوسرے کے لیے خوشی کا سامان ہو سکتا ہے اور خوشی کا محرک کسی کے لیے غصے کا موجب بن سکتا ہے۔ نفسیات جہاں اس کے ایسے محرکات اور اسباب دیکھتی ہے وہیں عصبی سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ غصے کا تعلق بھی ہمارے امیگڈیلا دماغ سے ہے۔ اس دوران انسان کا خود کار نظام فعال ہوجاتا ہے اور دماغ میں کیتیکلومائینز (Catecholamines)، ایڈرینالین اور کارٹیسول جیسے عصبی کیمیائی مادے اور ہارمون خارج ہوتے ہیں جن کے سبب ہمارے دل کی دھڑکن اور سانس کی رفتار تیز ہوجاتی ہے، فشار خون بڑھ جاتا ہے، چہرہ سرخ ہوجاتا ہے اور یوں جسم رد عمل اور اپنے حفاظتی اقدامات کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ غصہ کو انسان تربیت کے ذریعے کنٹرول کر سکتا ہے۔ نفسیات دانوں کے مطابق اس دوران وہ جس قدر اپنے شعوری دماغ (Prefrontal cortex) جس تعلق فیصلہ سازی اور غور و فکر سے ہے، کا استعمال کرے گا وہ اپنے اس شدید رویے پر قابو پا سکتا ہے۔

یادداشت کا احساس: ایک صحت مند انسان کی زندگی کا زیادہ تر انحصار اس کی یادداشت پر ہوتا ہے۔ جس کی بنیاد پر وہ سیکھتا ہے، چیزوں کو یاد رکھتا ہے اور اچھی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ یادداشت کے سبب ہی اکثر ہم ماضی کی یادوں میں کھوئے رہتے ہیں۔ جو ہمیں افسردہ بھی کرتی ہیں اور خوشی کا احساس بھی دلاتی ہیں۔ عصبی سائنس دانوں کے مطابق یادداشت در اصل ہمارے دماغ میں بننے والے عصبی خلیات کے درمیان رابطوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جب ہم کچھ سیکھ رہے ہوتے ہیں تو دماغ میں عصبی خلیوں کے درمیاں کئی تعلق قائم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دماغی کیمیائی مادے بھی یادداشت کی سائنس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

لمبک نظام کا ایک حصہ ہیپو کیپمس ہماری حال کی معلومات کو مستحکم کرتا ہے نیز یہ کم مدت کی معلومات کو طویل المعیاد مدت کے حافظے میں تبدیل بھی کرتا ہے۔ ہماری یادداشت کے احساس کا متنوع خوشبووں سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ کچھ خوشبووں سے ہماری یادیں وابستہ ہوتی ہیں اور یہ اتنی گہری ہوتی ہیں کہ ہماری خوشبو والی حس (olfactory bulb) کا سامنا جب بھی کسی متعلقہ خوشبو سے ہوتا ہے تو ہمیں اس سے جڑا واقعہ یاد آجاتا ہے اور ہم جزباتی ہو جاتے ہیں کیوں کہ خوشبو پر عمل درآمد کرنے والے دماغ کے حصے کا تعلق ہمارے اس دماغ کے حصے سے ہوتا ہے جسے ہم نے ابھی ہیپو کیمیس کے نام سے یاد کیا جو ہمارے طویل مدت کے حافظے کا ذمہ دار ہے اور اس کا تعلق چوں کہ امیگڈیلا دماغ سے بھی ہوتا ہے جس کا کام جذبات کنٹرول کرنا ہے تو اس لیے ہم خوشبو سے جڑی یاد سے افسردہ ہوجاتے ہیں یا احساس مسرت حاصل کرتے ہیں۔

بھوک اور پیاس کا احساس: اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ ہم بھوک اور پیاس کیوں محسوس کرتے ہیں تو اس کا سادہ اور درست جواب یہی ہے کہ ہمیں توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیوں کہ گزشتہ کھانے سے حاصل ہونے والے توانائی کو ہم استعمال یا صرف کر چکے ہوتے ہیں۔ بھوک اور پیاس کے احساسات ہمارے جبلتی محرکات ہیں۔ ہم اکثر بھوک کے شدید احساس میں کہتے ہیں کہ پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں۔ لیکن سائنسی صداقت کے طور پر پیٹ میں چوہے دوڑنے سے مراد ہمارا معدہ بھوک کے وقت سکڑتا اور پھیلتا ہے جس سے ہمیں بھوک کا احساس ہوتا ہے۔ اس دوران ہمارے خون میں شوگر کی سطح کم ہوجاتی ہے اور یوں بھوک کے احساس کا ہارمون خارج ہوتا ہے جسے گریلن (ghrelin) کہتے ہیں اور شکم سیری پر دوسرا ہارمون جسے لیپٹن (leptin) کہتے ہیں جاری ہوتا ہے۔ بھوک اور پیاس کو ہمارے دماغ کا حصہ ہائیپو تھیلیمس کنٹرول کرتا ہے اور یوں جسمانی توانائی کے توازن کو قائم رکھتا ہے۔

جنسی خواہش کا احساس: بھوک اور پیاس کی طرح جنسی خواہش کا احساس بھی جبلی طور پر ہماری سرشت میں شامل ہے جو ایک جسمانی تقاضا ہے اور نسلوں کی بقا کے لیے لازمی ہے۔ عنفوان شباب اور بلوغت کے وقت یہ احساس اپنے جوبن پر ہوتا ہے۔ ہمارے جسم میں اس شہوانی خواہش کے ذمہ دار ہارمون ٹیسٹوسٹیرون اور ایسٹیروجن ہیں جو مردو خواتین دونوں میں پائے جاتے ہیں۔ جنسی خواہش سے مبرا ان ہارمونز کا کام نر و مادہ کے جسمانی خدوخال اور بناوٹ سے بھی ہوتا ہے۔ یعنی عورت میں عورت والی خصوصیات اور مرد میں مردانہ خصوصیات کی تکمیل و تشکیل انھی ہارمون پر زیادہ تر منحصر ہوتی ہے۔ ہمارے دماغ کا حصہ ہائپو تھیلیمس ان ہارمون کو تحریک دیتا ہے اور یوں ہمارے اندر جنسی خواہش کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔

المختصر ان ابتدائی جذبات کے علاوہ ہمارے ثانوی جذبات اور احساسات بھی ہیں جو ہمارے مشاہدے کے جوابی عمل ہیں اور جن کے پیچھے مندرج بالا مذکورہ دماغی کیمیائی مادے اور رطوبتوں سمیت کئی اہم عصبی کیمیائی مرکبات کی اثر انگیزی ہوتی ہے۔ ان کی زیادتی اور کمی دونوں انسانی جسم کے توازن کو بگاڑ دیتی ہیں جبکہ ان کا توازن میں رہنا صحت مند اور توانا جسم کی نشانی ہے۔

ہمارے بنیادی جذبے کئی دیگر جذبوں اور محسوسات سے منسلک ہوتے ہیں جیسے کہ جنسی خواہش کے ساتھ پیار و محبت اور اسی طرح غصے کے ساتھ نفرت و بیزاری کے جذبے کا وابستہ ہونا۔ یاد رہے کہ جذبوں کے تذکیہ یعنی کتھارسس کا عمل بھی جاری رہتا ہے جو ان میں اعتدال کی صورت پیدا کرتا ہے۔ یہ جذبے، احساس اور تاثرات کسی بھی ماحول سے ہماری ہم آہنگی، موافقت اور بقا کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں جو انسانوں اور جانوروں کو پیدائشی طور پر ودیعت ہوئے۔

Check Also

Jazbat Aur Ehsasat, Science Ke Aaine Mein

By Sajjad Naqvi