Food Vloging Ka Karobar
فوڈ ویلاگنگ کا کاروبار

فوڈ ویلاگنگ کا کاروبار آج کے تیزی سے بدلتے دور میں ایسی حقیقت بن چلا ہے جو لوگوں کی ذہن سازی کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ میں اسے کاروبار کیوں کہہ رہا ہوں؟ کیونکہ بدقسمتی سے یہ کاروبار بن چکا ہے۔
آپ ایک مشہور فوڈ ویلاگر کو شاید جانتے ہوں جس نے لاہور میں جیلے کے کھانوں کو پروموٹ کرکے شہرت پائی۔ "او جیلیا اینی محبتاں نہ پا۔ جیلے بس کر دے بس۔ جیلے مکھن پا دتا ای؟" وغیرہ اس کا فوڈ کانٹینٹ تھا اور پھر جب جیلا چل نکلا اور بھائی کی بھی چل پڑی تو اسی نے جیلے کے ساتھ کاروباری شراکت داری میں کھٹ پٹ کے سبب جیلے کا کاروبار بھی برباد کر دیا۔ اسی بھائی نے گھٹیا کھانوں کے اڈوں پر مالکان سے پیسے لے کر ان کی پروموشن کی۔ ایک انٹرویو میں بلآخر اقرار کرتے پائے گئے کہ پیسے کمانا ان کی مجبوری تھی اس لیے انہوں نے کچھ ایسے ریسٹورانٹس پروموٹ کر دئیے جو بدذائقہ تھے مگر اب وہ عہد کرتے ہیں کہ آئندہ سے وہ ایسی "غلطیاں" نہیں کریں گے۔
مجھے ایک ریسٹورنٹ کے مالک ملے۔ انہوں نے مجھے اپنی داستان تفصیل سے سنائی۔ آئرلینڈ سے پڑھائی کرکے وطن لوٹے اور وہاں دوران پڑھائی جتنا کمایا وہ ساتھ لائے۔ ایک پلاٹ بیچا۔ رقم جمع کرکے ایک ڈیسنٹ ریسٹورنٹ جوہر ٹاؤن لاہور میں کھولا۔ ان کی ڈگری ہوٹل مینجمنٹ اور فوڈ پر ہے۔ سٹیٹ آف دی آرٹ کچن بنایا۔ ان کے کچن کی صفائی پر ہیلتھ اینڈ فوڈ ڈیپارٹمنٹ سے شاباشی کا ان کو سرٹیفکیٹ ملا جو ان کے ریسٹورنٹ پر لگا ہوا ہے۔
کام تھوڑا چل نکلا۔ ایک سال تو ان کو منافع نہ ہو پایا مگر پھر ان کا نام بننے لگا۔ دوسرے سال ریسٹورنٹ تھوڑا منافع دینے لگا۔ اس دوران ایک مشہور فوڈ ویلاگر ان کے ہاں چلا آیا۔ اس نے اپنا تعارف کروایا۔ مالک نے اس کو کھانے فراہم کئے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ اپنا غیرجانبدارانہ ریویو دے گا تو اس کے ریسٹورانٹ کی شہرت ہو جائے گی۔ اس کو کچن وزٹ کرایا گیا۔ جب سب کچھ کیمرے میں شوٹ ہوگیا تو کھانے کی باری آئی۔ ویلاگر نے کھانے کی بہت تعریف کی۔ پھر کیمرا بند ہوا۔
مالک کو دھچکا تب لگا جب سامان سمیٹ کر ویلاگر نے ان کو کہا کہ اگر وہ اسے کچھ مناسب رقم (مبلغ دو لاکھ روپے) ابھی دے دیں تو ان کے بزنس کی اچھی خاصی پروموشن ہوگی اور نتیجتہً ان کے ہاں رش لگ سکتا ہے۔ بندہ شریف تھا اس واردات کو نہ سمجھ پایا۔ اس نے شکرئیے کے ساتھ انکار کر دیا۔ وہ بھی "اٹس اوکے" کہہ کر چلا گیا۔
اس واقعہ کے ٹھیک چار دن بعد فوڈ ویلاگر صاحب چپ چاپ آئے۔ کھانے آرڈر کیے۔ ویڈیو بنائی اور یوٹیوب پر ڈال دی۔ ویڈیو میں کھانوں اور ریسٹورانٹ کی جتنی بھی آتما رول سکتے تھے وہ کر گزرے۔ خیر، وہ ویڈیو جب آئی تو ریسٹورنٹ کے پیج پر نیگیٹیو ریویوز بھی آنے لگے اور لوگ انہیں ٹیگ کرکے باتیں سنانے لگے۔ مالک نے پریشان ہو کر ان کو کال ملائی۔ جواباً ان کو کہا گیا کہ فون پر بات نہیں ہو سکتی وہ فلاں جگہ آ کر مل لیں (فون پر شاید اس لیے نہیں کرنا چاہتے تھے کہ ان کو ڈر ہوگا کال ریکارڈنگ کا)۔ قصہ مختصر، وہ بتائی ہوئی جگہ پر پہنچے۔ ان کے گلے کے جواب میں کہا گیا کہ بھائی آپ کو آفر دی تھی مگر آپ مانے ہی نہیں۔ اب یہ ہو سکتا ہے کہ ایک ماہ بعد دوبارہ وزٹ کرکے پازیٹیو ریویو دوں گا اگر آپ "مان" جائیں۔
سارا قصہ سنا کر کہنے لگے کہ اب صورتحال یہ ہے کہ ان کے پیج کی ریٹنگ گر چکی ہے۔ گوگل ریویوز پر نیگیٹو جعلی ریویوز کے سبب وہاں بھی ریٹنگ 4.6 سے نیچے آ کر 3.9 ہوگئی ہے۔ بزنس جو دو سال میں بنا کسی ایڈورٹائزمنٹ کے صرف اپنے ذائقے کے سبب منافع بخش ہوا تھا وہ اب break even پر آ گیا ہے اور وہ سوچ رہے ہیں کہ اس کو کلوز کرکے پی ایچ ڈی میں داخلہ لے کر بیرون ملک چلے جائیں۔ یہ داستان سناتے اس بندے کی آواز رُندھ گئی۔
فوڈ ویلاگر کا نام میں اس سبب نہیں لکھ سکتا کہ میرے پاس ایسے کوئی وربل یا ان رائٹنگ ثبوت نہیں ہیں۔ مجھ پر defamation کا کیس کر سکتے ہیں۔ ریسٹورانٹ کا نام اس لیے نہیں لکھ رہا کہ اس تحریر کو ریسٹورنٹ کی کاؤنٹر پروموشن نہ سمجھ لیا جائے۔ ان صاحب نے مجھے بس ایک تقریب میں اپنی داستان سنائی تھی۔ چونکہ کچھ حالات حاضرہ سے واقفیت رکھتا ہوں اور یہ جانتا ہوں کہ سوشل میڈیا انفلیونسرز کا "کاروبار" کن بنیادوں پر استوار ہو رہا ہے اس لیے ایسی داستانیں سن کر دل کڑھتا ہے۔ لوگ خدائی منصب اپنے ہاتھ لے چکے ہیں۔ کس کو برباد کرنا ہے، کسے آباد کرنا ہے، یہ فیصلے اب یوٹیوب، فیسبک، انسٹا اور ایکس پر ہوتے ہیں۔ یہ جنریشن زی کا زمانہ ہے۔ بھلے وقتوں میں پراپیگنڈا ماوتھ ٹو ماوتھ پھیلتا تھا، پھیلتے پھیلتے وقت لیتا تھا۔ اب تو ایک ٹویٹ، ایک ویڈیو ڈالیں۔ گھنٹے میں لاکھوں ویوز۔ ختم شد