Baap Beeti Az Saqi Farooqi
پاپ بیتی از ساقی فاروقی

راجندرسنگھ بیدی نے اپنے مضمون آئینے کے سامنے کے سرنامے کے طور پر یہ جملے لکھے تھے، فادر روزاریو نے گناہ گار جاہن سے کہا، تم یہاں اعتراف کرنے آئے تھے، مگر تم نے تو ڈینگیں مارنی شروع کردیں۔
آج کے مدیر جناب اجمل کمال کچھ اور نہ بھی لکھتے تو ساقی فاروقی کی آپ بیتی بعنوان پاپ بیتی کے لیے یہ جملے کافی تھے۔ لیکن انھوں نے اس پر ایک طویل مضمون لکھا اور ساقی فاروقی کا وہی حال کیا جو وہ دوسروں کے ساتھ کرتے تھے۔ یعنی بخیے ادھیڑ دیے۔
پاپ بیتی پڑھنے سے پہلے یا بعد آپ نے اجمل صاحب کا مضمون نہ پڑھا تو سمجھیں کہ لطف آدھا رہ جائے گا۔ کتاب میرے کتابوں والے گروپ سے اٹھالیں۔ مضمون بھائی عقیل عباس جعفری کی وال پر موجود ہے۔ اس کے دو پیراگراف یہیں پڑھ لیں: "ان نیم پیشہ ور خواتین کو چھوڑ کر، جن میں سے ایک کو حیدرآباد کے ایک خستہ حال ہوٹل میں بقول خود "آٹوگراف" دیتے ہوئے وہ پکڑے گئے تھے، ان کی یادداشتوں میں ان کی صرف ایک "معشوقہ" کا تفصیلی ذکر ملتا ہے جو ان کے ایک نہایت عزیز دوست کی بیوی تھیں (بلکہ اب تک ہیں) اور جن کے ساتھ انھیں کوئی چھ آٹھ مہینے تک گنڈے دار ہم بستری کا موقع ملا۔ لیکن ایک تو بقول خود ساقی کے، اس میں حاشا و کلا میرا کوئی قصور نہیں۔ میں تو ایک معمولی اناڑی کنوارا تھا اور عضو شرم کو صرف قارورے اور خود وصلی کے لیے استعمال کرتا تھا۔ مگر اس "عفیفہ" نے پہلی بار دوسرے مصارف بھی بتائے۔
دوسرے یہ کہ زلف بھاوج کے تنہا ساقی ہی اسیر نہ تھے، ان کے کئی دیگر عزیز دوست بھی ان کے زلف شریک بھائی تھے۔ گویا یہ ایک قسم کی برادرانہ یا جماعتی سرگرمی تھی (یا صالحین کا ورزشی وتربیتی کیمپ کہہ لیجیے)۔
یہ بدزبانی ایک ایسی خصوصیت ہے جسے وہ (علاوہ اور چیزوں کے) کراچی کے اس ریڈیائی و ادبی گروہ کے متعدد ارکان کے ساتھ مشترک رکھتے ہیں جس کے سر گروہ سلیم احمد تھے۔ البتہ کچھ عرصہ پہلے تک اس میدان میں سلیم احمد کے برادر خورد شمیم احمد کو پورے گروہ میں اولیت کا شرف حاصل تھا۔ ساقی کی تصنیف غیر لطیف کو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ کریہہ اللسانی کے اس مقابلے میں انھوں نے نہ صرف اپنے بزعم خود رقیب (دراصل بھاوج شریک بھائی) کو گزوں پیچھے چھوڑ دیا ہے بلکہ کہیں کہیں تو، مشفق خواجہ کے الفاظ میں، موصوف کی بدزبانی ان کی اپنی بدباطنی تک پر غالب آگئی ہے۔