Ramzan Ul Mubarak, Bikari Aur Parindon Ki Azadi Ka Dhanda
رمضان المبارک، بھکاری اور پرندوں کی آزادی کا دھندہ

بھیک مانگنے کی روایت انسانی تاریخ میں قدیم دور سے چلی آ رہی ہے۔ مختلف تہذیبوں میں ناداروں اور محتاجوں کی مدد کو نیکی سمجھا جاتا تھا اور مذہبی عقائد نے بھی اس عمل کو کسی نہ کسی صورت میں تسلیم کیا ہے۔ اسلام میں بھی ضرورت مندوں کی مدد کی تعلیم دی گئی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ محنت اور کسبِ حلال کو بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں کام کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس بات کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے کہ کوئی شخص اپنی محنت کے بغیر دوسروں پر بوجھ بنے اور بھیک مانگتا پھرے۔
برصغیر میں بھیک مانگنے کا رجحان استعماری دور میں اس وقت مزید بڑھا جب سماجی ناہمواریوں اور معاشی استحصال کے سبب کئی خاندان بےروزگار ہوگئے۔ جدید دور میں بھیک مانگنا ایک منظم کاروبار بن چکا ہے جہاں مافیا غریب بچوں، بوڑھوں اور معذوروں کو اس کام میں دھکیل کر خود فائدہ اٹھاتے ہیں۔
آج کے اس کالم میں ایک نہایت اہم سماجی مسئلے کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ بھیک مانگنے کو عام طور پر غربت کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت میں پاکستان میں یہ ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ جب کوئی کسی بھکاری کو بھیک دیتا ہے تو وہ درحقیقت اس نظام کو مزید مضبوط کر رہا ہوتا ہے۔
یہی منطق ان پرندوں کی آزادی سے جڑی ہے جو بازار میں خریدے جاتے ہیں تاکہ آزاد کیے جا سکیں۔ بظاہر یہ عمل رحم دلی کا مظہر لگتا ہے لیکن عملی طور پر اس سے کاروباری افراد کو مزید پرندے قید کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہی صورتِ حال بھکاریوں کے معاملے میں بھی نظر آتی ہے۔ جب ایک شخص کسی پیشہ ور بھکاری کو پیسے دیتا ہے تو وہ یہ دیکھ کر مزید افراد کو بھی اس کام میں ملوث کر لیتا ہے جس سے معاشرے میں بھکاریوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جوکہ ایک المیہ ہے۔
ان مسائل کے ممکنہ حل کے لیے چند تجاویز پر عمل کیا جائے، سماجی آگاہی مہم کے ذریعے عوام کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ بھیک دینے سے غربت ختم نہیں ہوتی بلکہ یہ عمل مزید لوگوں کو اس دھندے کی طرف راغب کرنے کا سبب بنے گا۔ میڈیا، تعلیمی ادارے اور مساجد اس حوالے سے مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔
حکومت اور سماجی اداروں کو مل کر ایسا فلاحی نظام وضع کرنا ہوگا جہاں حقیقی ضرورت مندوں کو ان کے حق کے مطابق امداد دی جائے لیکن یہ مدد روزگار کی صورت میں ہو نہ کہ مفت رقم کی صورت میں۔
متعلقہ اداروں کو اس منظم کاروبار کے پیچھے موجود گروہوں اور بھکاری مافیاز کو بے نقاب کرکے ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنی چاہیے تاکہ بھیک مانگنے کی لعنت کا سدِباب ہو سکے۔
جو لوگ مجبوری کے تحت بھیک مانگ رہے ہیں انہیں مناسب تربیت دے کر کسی ہنر مند شعبے کی طرف مائل کیا جائے تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔
اسلام میں زکٰوۃ اور خیرات کے واضح اصول موجود ہیں۔ ان اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فلاحی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی مدد کریں لیکن انہیں بھکاری بنانے کے بجائے خود کفیل بنائیں۔
اس کالم میں ہم نے ایک نہایت اہم سماجی مسئلے کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے اور حقیقت میں ہمیں اس مسئلے کے گہرے پہلوؤں پر غور کرنا ہوگا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ بھیک مانگنے کا رجحان کم ہو تو ہمیں اپنی مدد کے طریقے تبدیل کرنے ہوں گے۔ ضرورت مندوں کی حقیقی مدد وہی ہے جو انہیں خودمختار بنائے، نہ کہ انہیں دوسروں پر انحصار کرنے کی ترغیب دے۔
لہٰذا اگر ہم سب یہ عہد کر لیں کہ ہم بھکاریوں کو بھیک نہیں دیں گے بلکہ ان کی مدد کسی اور عملی اور مثبت انداز میں کریں گے، تو ایک سال کے اندر اندر اس رجحان میں نمایاں کمی آئے گی ان شا الله۔