Monday, 17 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Zehni Dabao Ko Shikast Dein

Zehni Dabao Ko Shikast Dein

ذہنی دباؤ کو شکست دیں

ہر شخص کی زندگی میں ڈپریشن کا ایک تاریک دور ضرور آتا ہے۔ کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی مدد اور مضبوط قوت ارادی کے ساتھ اسے شکست دے دیتے ہیں اور کچھ تاریکی میں ہاتھ پاؤں چلا کر خود کو بے مقصد تھکاتے ہیں۔ یاد رکھیں جو ڈپریشن یعنی ذہنی دباؤ کو شکست دیتے ہیں۔ وہ لوگ اس کے سبب کو بھی شکست دے سکیں، یہ ہرگز ضروری نہیں۔

ہم انسان ہر اس بات پر ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جو ہماری توقع کے بر عکس ہو۔ ہر انسان اپنی زندگی اپنی خواہشات کے مطابق گزارنا چاہتا ہے۔ جو کہ ہرگز ممکن نہیں۔ جب یہ خواہش پوری نا ہو تو بڑے سے بڑے جری مرد اور حوصلہ مند خواتین بھی ڈپریشن کا شکار بن جاتے ہیں۔ پھر اس سے چھٹکارا پانے کے مختلف طریقے آزمائے جاتے ہیں۔ کبھی ہم پامسٹ کے پاس چلے جاتے ہیں۔ کبھی ذکر الہیٰ میں سکون تلاش کرتے ہیں۔ صدقہ و خیرات سے کام لیتے ہیں۔ موسیقی میں روح کا سکون تلاش کرتے ہیں۔ کتابوں میں غرق ہو جاتے ہیں۔ غرض ہر کوئی مختلف طریقوں سے اس وقت کو گزارنا چاہتا ہے۔

انٹر کے بعد میری زندگی بھی ایک جگہ عجیب طریقے منجمد ہوگئی۔ والدہ کی بیماری کے سبب انٹر کے بعد پڑھائی چھوڑ دی۔ ایک سال بعد جب والدہ صحت مند ہوگئیں تو سوچا کہ جاب کر لیتی ہوں یا پھر دوبارہ پڑھائی شروع کی جائے۔ کچھ سمجھ نا آئے کہ کیا کروں۔ زندگی بیزار محسوس ہونے لگی۔

انہی دنوں مجھے ستاروں کے حال جاننے اور پامسٹری کی کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ میں نے دھڑا دھڑ ان موضوعات پر کتابیں خریدنا اور پڑھنا شروع کر دیں۔ ایک مشہور پامسٹ ایم اے ملک کی کتاب "ہاتھ کی زبان" خریدی۔ بے حد دلچسپ کتاب تھی۔ خاص طور پر مصنف نے جو ذاتی واقعات بیان کیے تھے، بہت مزے کے لگے۔ مصنف کا ایڈریس اور رابطے کے لیے فون نمبر کتاب پر لکھا تھا۔ میں نے فون کرکے ٹائم لیا اور بہن کے ساتھ گرمی کے شدید موسم میں وحدت روڈ پر موجود ان کے گھر پہنچ گئی۔ محترم نے ہاتھ کا پرنٹ لیا۔ تین سے چار مستقبل کی باتیں بتائیں اور تین سو روپے فیس مانگ کر اپنی کتاب پر آٹو گراف دے دیا۔ مجھے احساس ہوا کہ بے مقصد ملاقات رہی۔ کیوں کہ اتنا علم تو مجھے بھی کتابیں پڑھ کر حاصل ہو چکا تھا۔

میں نے سہیلی کی بہن کے اسکول میں جاب کر لی۔ پھر کچھ عرصے کے بعد دوبارہ تعلیم کا سلسلہ جوڑنے کا سوچا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں؟ اسی ڈپریشن میں ایم اے ملک صاحب سے دوبارہ ملنے کا سوچا۔ ایک سال بعد پھر فون پر وقت لیا اور بڑی بہن کے ساتھ ان کے گھر میں موجود آفس پہنچ گئی۔ انھوں نے سابقہ باتیں بتائیں، آٹو گراف دیا اور اس مرتبہ پانچ سو روپے فیس لی۔

یہ آخری مرتبہ تھا۔ اس کے بعد میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ کبھی کسی پامسٹ کو ہاتھ نہیں دکھانا۔

ڈیل کارنیگی کی ایک کتاب میں پڑھا کہ مصروفیت ہر غم اور ڈپریشن کا علاج ہے۔ آپ یقین کریں۔ میں نے اس جملے کو گویا پکڑ لیا۔ اسکول ٹیچنگ جاب چھوڑی۔ گورنمنٹ کالج سمن آباد میں ایڈمیشن لیا۔ گریجویشن کے بعد اورئینٹل کالج میں ایڈمیشن لے لیا۔ چار سال اس قدر مصروف تھے کہ ڈپریشن کس بلا کانام ہے، بھول ہی گئی۔ تب سے لے کر اب تک مجھے ڈپریشن کو شکست دینے کا یہ سب سے کامیاب طریقہ لگا۔ لیکن ساتھ ذکر الہیٰ اور اللہ تعالیٰ سے تعلق بھی مضبوط بنائیں۔

مصروفیت، مسنون اذکار، پسندیدہ مشغلہ یہ وہ دلچسپ طریقے ہیں۔ جنھیں آزما کر آپ کہیں گے ڈپریشن کس چڑیا کا نام ہے؟

محبت کرنے والے دوست بھی آپ کے ڈپریشن کو بھگانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ لافٹر تھراپی سے بھی کام لیں۔ ہنسنے اور مسکرانے کے مواقع تلاش کریں۔ کیوں کہ جلنے کڑھنے کے مواقع اردگرد والے خود ہی فراہم کر دیں گے۔ سب ذاتی تجربات بتانے کا مقصد ہے کہ خود کو ہر ڈپریشن سے خود ہی نکالیں۔

یاد رکھیں انسان بے بس ہے۔۔ تو جہاں تک بس چل رہا ہے۔۔ وہاں تک کوشش کر لیں۔

حالات آپ کی منشا کے مطابق نہیں ہیں۔ تو پھر خود کو وقتی طور پر حالات کے مطابق ڈھال لیں اور ڈپریشن کو زندگی سے نکال پھینکیں۔

اللہ تعالیٰ ایک مقرر وقت کے بعد سب کچھ ٹھیک کر دیتے ہیں اور غم کی شدت بھی کم ہو جاتی ہے۔

Check Also

Muqable Ka Imtihan (1)

By Rao Manzar Hayat