Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Rao Manzar Hayat
  3. Ghaate Ka Sauda

Ghaate Ka Sauda

گھاٹے کاسودا

بارک اوباما امریکا کے صدر تھے۔ صدارت کے تیسرے سال جنوبی امریکا کے ایک ملک میں کافی مہیب مسائل پیدا ہو گئے۔ امریکی صدر نے پینٹا گون اور سی آئی اے کے سربراہان کو بلایا، ان سے مشاورت کی۔ دونوں کا مشورہ تھا کہ چارسال پہلے ایک سینئر افسر ریٹائر ہوا ہے، جو اس ملک میں کافی دیر سرکاری کام کرتا رہا۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر اسے معلومات ہوں گی کہ وہاں حالات کیسے بہتر کیے جائیں۔ صدر نے اپنے چیف آف اسٹاف کو کہا کہ اگلے ہفتے، بدھ والے دن اس تجربہ کار افسر کو بلا لیں تاکہ اس سے مشورہ کیا جائے۔

حکم کے مطابق وائٹ ہاؤس کے اسٹاف نے اس ریٹائرڈ افسر سے رابطہ کیا اور بتایا کہ آنے والے ہفتے میں بدھ کے دن گیارہ بجے صدر اس سے ملنا چاہیں گے۔ ریٹائرڈ افسرنے بڑی متانت سے جواب دیا کہ میں مقررہ دن اور وقت پر بے حد مصروف ہوں۔ لہٰذاوائٹ ہاؤس آنے سے قاصر ہوں۔ صدر کا اسٹاف حیران رہ گیا کہ ایک ریٹائرڈ افسر کی ایسی کونسی مصروفیت ہو سکتی ہے جو اسے ملاقات پر آنے سے روک رہی ہے۔ بہرحال جب امریکی صدر کے چیف آف اسٹاف کو یہ بتایا گیا تو وہ بھی حیرت زدہ ہوگی۔ فیصلہ کیا کہ خود اس ریٹائرڈ افسر سے بات کرے گا۔

چیف آف اسٹاف نے اس افسر کو فون کرکے صدر سے مشاورت کی بابت ملاقات کا دن کنفرم کرنا چاہا۔ حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس ریٹائرڈ افسر نے وہی جواب دیا جو وائٹ ہاؤس کے دیگر لوگوں کو دیا تھا۔ بہر حال چیف آف اسٹاف نے بڑے احترام سے پوچھا کہ آخر وہ کونسی مصروفیت ہے یا مجبوری ہے جو آپ کو امریکی صدر سے زیادہ اہم معلوم ہو رہی ہے۔ جواب حد درجے متاثر کن تھا۔ اس دن اپنی نواسی کو چڑیا گھر دکھانے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔

سارا دن میں اور میری نواسی واشنگٹن کے چڑیا گھر میں گزاریں گے اور شام کو واپس آئیں گے۔ جواب سن کر، وائٹ ہاؤس کا وہ سینئر افسر پریشان ہوگیا۔ مگر اس نے بڑے آرام سے کہا کہ جناب یہ تو کسی قسم کی کوئی مصروفیت نہیں۔ آپ نواسی کو کسی اور دن چڑیا گھر لے جائیں۔ بوڑھے افسرنے جواب دیا کہ پہلی بات تو یہ کہ میں سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہو چکا ہوں اور صدر کو مشورہ دینے کے لیے مجھ سے بہتر لوگ موجود ہیں۔ مگر اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اپنی نواسی کے ساتھ دو مہینے پہلے پروگرام بنایا تھا کہ فلاں دن اسے چڑیا گھر لے کر جاؤں گا۔

ہم پرندوں اور جانوروں کو دیکھیں گے، ان سے لطف اندزو ہوں گے اور شام تک وہاں کی سیر کریں گے۔ چیف آف اسٹاف یہ بات سن کر ششدر رہ گیا۔ افسر نے کہا کہ اگر اپنی نواسی کو وعدے کے مطابق، اس کا پسندیدہ چڑیا گھر نہ دکھایا تو شاید وہ کچھ دن تو صبر کر لے۔ مگر یہ وعدہ خلافی اسے پوری زندگی یاد رہے گی۔ میں نہیں چاہتا کہ میری اس قیمتی بچی کے ذہن میں کوئی ایسی پھانس رہ جائے جو پوری عمر اس کے ساتھ رہے۔

معصوم بچے ہر چیز کو بڑوں سے زیادہ محسوس کرتے ہیں کیونکہ وہ حد درجے حساس ہوتے ہیں۔ اگر بدھ کے دن وعدے کے مطابق امریکی صدر سے ملنے چلا گیا اور اپنی نواسی کو چڑیا گھر نہ لے کر جاؤں۔ تو یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے جو مجھے قطعاً منظور نہیں۔ یہ گفتگو اسی طرح اختتام پذیر ہوگئی۔

ذرا سوچیے کہ کیا وہ ریٹائرڈ افسر امریکی صدر کی خواہش کا احترام نہیں کر سکتا تھا؟ اس کا جواب ہاں اور نا ں دونوں میں ہے۔ سوال ہے کہ اگر ہمارے جیسے ملک کا وزیراعظم، آپ کو ملاقات کی دعوت دے اور اسی دن ایک اہم خاندانی مصروفیت ہو تو آپ کیا فیصلہ کریں گے؟ اپنے ملک کے معروضی حالات کے حساب سے ننانوے فیصد لوگ وزیراعظم یا کسی بھی انتظامی سربراہ سے ملنے ضرور جائیں گے۔ ان کی نظر میں یہ بالکل نقصان کا سودا نہیں۔ مگر اب اسی سوال کو مزید سنجیدگی سے دوبارہ سوچیے۔ شاید اپنے سوال کا جواب آپ کو نفی میں ملے۔ کہ کسی بھی سرکاری ملاقات یا تقریب سے زیادہ اہم آپ کی فیملی اور ان سے منسلک چھوٹے چھوٹے کام ہیں۔

انسان کی زندگی کے مختلف مراحل ہوتے ہیں۔ بچپن، جوانی، تعلیم، کوئی نوکری یا کاروبار اور پھر بڑھاپا جسے آپ موت کا انتظار بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان تمام عناصر میں ہرگز ہرگز یکسانیت نہیں ہے۔ کسی کا بچپن پرآسائش ہوگا اور پرآزمائش۔ کوئی معمولی تعلیم حاصل کر پائے گا اور کوئی دنیا کی بہترین یونیورسٹی سے آراستہ ہوگا۔ کسی کی نوکری واجبی ہوگی اور کوئی اہم ترین منزلیں طے کرتا نظر آئے گا۔ کوئی کاروبار میں پیچھے رہ جائے گااور کوئی کامیاب ہو جائے گا۔ مگر ایک جگہ یکسانیت ہے اور یہ حیرت انگیز ہے۔

عملی زندگی کے اختتام کے بعد یعنی ریٹائر منٹ کے بعد تمام لوگ تقریباً ایک جیسے ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنی عملی زندگی میں کامیابی کے لیے شدید محنت کرتے ہیں۔ کامیابی کے زینے پر چڑھتے ہوئے ہم اپنے اہلخانہ کو کافی حد تک نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اکثریت کی بابت عرض کر رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم لوگوں میں جو حد درجے سمجھدار ہیں۔ وہ اپنی عملی زندگی میں خاندان کا بھرپور خیال رکھتے ہوں۔ مگر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ واضح اکثریت اپنے فرائض منصبی تو ادا کرتے رہتے ہیں۔ مگر اس مصروفیت میں ان کے اہل خانہ سب سے زیادہ نظر انداز ہوتے ہیں۔

اردگرد دیکھتا ہوں تو اکثر لوگ حد درجہ مصروفیت یا وقت کی قلت کی بات کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر کوئی کاروباری شخص ہے، تو وہ صبح سے رات تک صرف اور صرف دولت بڑھانے کے نت نئے طریقے ڈھونڈ رہا ہوگا۔ اگر کوئی سرکار کی نوکری میں ہے تو وہ اپنے سینئر ز کی نظر میں چمکنے کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کرے گا جس سے وہ کامیاب سے کامیاب تر ہوتا چلا جائے۔ تارکین وطن، جن کے اہل خانہ پاکستان ہی میں رہتے ہیں اور وہ باہر کے ملکوں میں جا کر نوکریاں کرتے ہیں، تاکہ پاکستان پیسے بھیج کر اپنے خاندان کو آسائشیں فراہم کر سکیں۔ ان کا کرب اور تکلیف سب سے زیادہ ہے۔ ایک سال کے بعد چھٹی پہ گھر آ کے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ تعلق کو بھرپور طریقے سے مضبوط نہیں کر پاتے۔ ان کی زندگی بھی مختلف بلکہ متضاد حصوں میں بٹ جاتی ہے۔ میں خود اس المیہ کا شکار رہا ہوں۔

جب میرے دونوں بیٹے لاہور کے ایک اچھے اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اس وقت میں پاکستان میں مختلف ضلعو ں میں نوکری کر رہا تھا۔ ذہن میں صرف یہ تھا کہ بچوں کو اس اسکول سے ہٹایا نہ جائے تاکہ وہ بہترین تعلیم حاصل کر سکیں۔ اپنی سوچ میں اس وقت کوئی غلطی نظر نہیں آتی تھی۔ مگر اب غور سے سوچتا ہوں تو مجھے اپنے بچوں کا بچپن بالکل یاد نہیں ہے۔ یہ میری اہلیہ کی ہمت تھی کہ اس نے دونوں بیٹوں کی بہترین پرورش کی اور میری سرکاری نوکری کی کوتاہیوں کو سامنے نہ آنے دیا۔ بہر حال عرض کرنے کا مقصد بالکل سادہ ہے۔ آپ کو اپنی زندگی میں چند اصول طے کر لینے چاہیں۔ ہر انسان کے لیے یہ اصول کارگر نہیں ہو سکتے لہٰذا میں اکثریت کا لفظ استعمال کروں گا۔

عملی زندگی پر بھرپور توجہ دیں۔ مگر اپنی مصروفیت کی منفی چھاؤں اپنے اہل خانہ پر نا پڑنے دیں۔ آپ کے بچے آپ سے اس وقت تو شکایت نہیں کریں گے۔ لیکن اگر کوئی وعدہ کرکے آپ پورا نہیں کر پائے تو وہ ہمیشہ محسوس کریں گے اور یہ کوتاہی آپ کوبھی عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ چبھتی رہے گی۔ جو مرضی ہو جائے۔ اپنے بچوں اور فیملی کو بھرپور ٹائم دیں، کوئی معمولی سا وعدہ بھی کیا ہے تو اسے ہر ممکن حد تک پورا کریں۔ کوشش کریں کہ آپ ان کے رول ماڈل بن کر رہیں اور ہوتا بھی یہی ہے۔ بچے والدین کو اپنا رول ماڈل بنا کر اگلی زندگی کو ترتیب دیتے ہیں۔

آپ کی فیملی لائف قدرت کا بیش قیمت تحفہ ہے۔ اسے ضایع کرنا حد درجے حماقت ہے۔ مگر لوگوں کی اکثریت اس کی قدر نہیں کرتی۔ ناقدری کے نقصان تو بہت بعد میں محسوس ہوتا ہے۔ مگر اس وقت زندگی اختتامی سفر پر گامزن ہوتی ہے، آپ نقصان کا مدوا نہیں کر سکتے۔ ہرگز ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ اپنی عملی زندگی میں کوشش اور جدوجہد نہ کریں۔ میرا تو مشورہ ہے کہ اسے مثالی طریقے سے کریں۔ مگر ایک توازن قائم کیجیے جس میں آپ کی عملی مصروفیات اور اہل خانہ سے منسلک معاملات میں حد درجہ توازن رہے۔ یقین کیجیے کہ اکثر لوگ گھاٹے کا سود اکرتے ہیں۔ وہ زندگی میں کامیاب تو ہو جاتے ہیں۔ مگر خاندانی زندگی میں بالکل ناکام رہتے ہیں۔ اس امریکی بوڑھے شخص کی بات کو یاد رکھیئے کہ مقررہ وقت اور دن پر نواسی کو چڑیا گھر ضرور دکھانا ہے۔

Check Also

Teenage, Bachiyan Aur Parhayi

By Khansa Saeed