Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Rao Manzar Hayat/
  3. Cheetah Nahi, Oont Baniye

Cheetah Nahi, Oont Baniye

چیتا نہیں، اونٹ بنیے!

چیتا ایک طاقتور اور غیور جانور ہے۔ تیز دوڑنے والا جسم رکھتا ہے۔ ایک گھنٹہ میں پچاس سے اسی میل کی رفتار سے بھاگنے کی قوت کسی اور جانور کو ودیعت نہیں کی گئی۔ چیتے میں ایک اور حیرت انگیز صلاحیت بھی موجود ہے۔ یہ چھلانگ لگاتے ہوئے مڑنے کی استطاعت رکھتا ہے۔

عمومی طور پر اسے جرأت اور ہمت کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ مگر اس میں ایک حد درجہ منفی عادت بھی ہے۔ یہ بہت جلد غصے میں آ جاتا ہے۔ طاقت اور اہلیت کے زور پر فوراً دوسرے جانوروں سے بھڑ جاتا ہے۔ اور تو اور، چرخ یا لگڑ بگڑ کے غول سے بھی لڑ پڑتا ہے۔ نتیجہ بالکل سادہ سا ہے۔ اس طرح کی بے جوڑ لڑائیوں میں چیتا اپنی طاقت کے زور پر کچھ نہیں کر پاتا۔ اکثر ماراجاتا ہے۔ لگڑ بگڑ کا غول ہمیشہ چیتے کے گوشت پر ضیافت اڑاتے ہیں۔ چیتا کسی کو بھی اپنے اوپرسواری نہیں کرنے دیتا۔ اب ذرا اونٹ پر غور کیجیے۔ اس میں محیرالعقول صلاحیتیں ہیں۔

کوہان میں اتنی چربی موجودہوتی ہے کہ یہ کئی دن مسلسل کھائے پیے بڑی آسانی سے زندہ رہ سکتا ہے۔ چربی پگھل کر اونٹ کو غذا فراہم کرتی ہے اور یہ ٹیڑھا میڑھا سا جانور بڑے آرام سے صحرا کو عبور کر لیتاہے۔ ایک وقت میں دو سو لیٹر پانی پی کر خاموشی سے اپنا سفر شروع کر دیتا ہے۔

اس کے تین معدے ہوتے ہیں۔ اور یہ بڑے سکون سے کسی بھی آدمی کو اپنا سوار بنا لیتا ہے۔ غصہ آتا بھی ہے تو اسے اپنے دل میں رکھ کر مزے سے جگالی کرتا رہتا ہے۔ پھر وقت اور موقعہ ملنے پر، اپنے دشمن کا سر چبا جاتا ہے۔ یہ کسی سے بھی نہیں لڑتا۔ صلح جو نظر آنے والا یہ جانور، خوفناک حد تک انتقام کی خو رکھتا ہے۔

ملک کے اندرونی حالات، اداروں کی کارکردگی، انسانی زندگی، لوگوں اور خاندانوں کا عروج و زوال، قائدین، بڑے کاروباری افراد، بلکہ کسی بھی انسانی عنصر کو اونٹ اور چیتے میں تقسیم کر لیں۔ کامیابی کا گر سمجھ میں آ جائے گا۔ اگر ناکام ہوتے ہیں تو اس کی وجہ بھی معلوم ہو جائے گی۔

استثناء بہر حال ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ انسانی زندگی کا سب سے بڑا حسن ہی یہی ہے کہ یہ مسلسل تبدیل ہونے والی قیامت ہے۔ آپ کسی بھی شہر، قصبے، دیہات، صوبے یا ملک میں رہتے ہوں۔ کامیاب انسانوں کو بغوردیکھنا چاہیے۔ عام سی مثال دے رہا ہوں۔ میرا تعلق لائل پور (فیصل آباد) سے ہے۔ آج سے تقریباً پچپن برس پہلے چند لوگ، گھنٹہ گھر چوک پر صبح صبح آ جاتے تھے۔ ان کی سائیکلوں کے پیچھے کپڑے کے تھان بندھے ہوتے تھے۔ شروع میں آنے والے تمام لوگوں کو ایک ہی فقرہ کہتے تھے۔ کہ تڑکے (صبح) کا وقت ہے اور بونی(کاروبار یا منافع)بس آپ سے شروع کرنا ہے۔

گاہک کویقین دلا دیتے تھے کہ تم سے کوئی منافع نہیں لے رہے۔ اور اس طرح انھیں کامیابی سے بے وقوف بنا کر حد درجہ منافع کما لیتے تھے۔ اگر صبح سودا نہ بک پائے تو یہ سائیکل پر مختلف محلوں میں جانا شرو ع کر دیتے تھے۔ آج ان لوگوں کے خاندانوں کے پاس ان گنت کاروباری ادارے ہیں۔

یہ پاکستان کی کسی بھی حکومت سے زیادہ امیر ہیں۔ ان لوگوں کے مزاج پر غور کیجیے۔ یہ کبھی کسی پر غصہ ظاہر نہیں کرتے۔ تمام سیاسی پارٹیوں کے اکابرین کو معقول چندہ دیتے ہیں۔ کسی دھڑے بندی یا گروہی سیاست میں نہیں آتے۔ یہ وہ کاروباری اونٹ ہیں جن کے پاس بڑے بڑے متعدد معدے لگے ہوئے ہیں۔ یہ کیا کچھ کھا رہے ہیں۔ کتنا کچھ کھا رہے ہیں۔

کوئی بھی پروا نہیں کرتا۔ ہر حکومت میں بڑے آرام سے سربراہ تک کو رام کر لیتے ہیں۔ سکے کا دوسرا رخ دیکھیے۔ اگر کوئی بھی کاروباری خاندان یا شخص چیتا بننے کی کوشش کرتا ہے۔ سیاست میں منہ مارنا شروع کر دیتا ہے تو وہ فوری طور پر متنازعہ ہو جاتا ہے یا بنا دیا جاتا ہے۔

اس کے کاروبار میں اتنے رخنے ڈال دیے جاتے ہیں، کہ دھندہ پگھلنا شروع ہو جاتا ہے۔ ان کے نظریات سے مختلف حکومت ہو، تو ان سے قرضے واپس مانگ لیے جاتے ہیں۔ انھیں ہر سہولت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ انتہائی کم مدت میں یہ لوگ کاروبار کو تالا لگا کر شکوہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ انھیں چیتا بننے کا خبط ہوتاہے مگر یہ نہیں جانتے کہ چرخ کے غول کے سامنے چیتاایک مچھر سے زیادہ بھی حیثیت نہیں رکھتا۔

سول سروس کو مثال کے طور پر دیکھیے۔ عمومی گمان ہے کہ ادھر آپ سی ایس ایس کر کے اعلیٰ انتظامی نوکری میں آئے تو قسمت کی دیوی مہربان ہو گئی۔ آپ تیزی سے ترقی در ترقی کرتے جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ انتہائی کم مدت کے لیے ایسا ہی ہو۔ مگر طویل دورانیے یعنی تیس پینتیس برس کے زاویے سے ملاحظہ کیجیے تو آپ کو چیتے اور اونٹ والا فرق صاف نظر آ جائے گا۔

عملی مثال دینا چاہتا ہوں۔ میرے سے چند بیچ پہلے ایک انتہائی ذہین شخص نے ڈی ایم جی کی نوکری مقابلے کے ذریعے جوائن کی۔ امریکا کی ایک اعلیٰ یونیورسٹی سے "میڈل آف آنر" حاصل کیا ہواتھا۔ والدین کاروباری تھے اور انھیں شوق تھا کہ اپنے سپوت کو اعلیٰ ترین افسر دیکھیں۔ سول سروس اکیڈمی میں وہ افسر نئے ماڈل کی بہترین گاڑی پر آیا۔ جو بھی ملتا، اس کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ سب کو یقین تھا کہ یہ افسر اتنا لائق ہے کہ ایک دن پاکستان کے اعلیٰ ترین انتظامی عہدے اس کی ٹھوکر میں ہوں گے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس افسر کو اپنی اعلیٰ ترین تعلیم اور ذہانت کا زعم تھا۔

ہرمیٹنگ میں آزادانہ طور پر اپنی رائے دیتا تھا۔ باقی سب خاموشی سے دبک کر بیٹھے رہتے تھے۔ ہوا کیا۔ لیاقت اور قادر الکلامی اس کی دشمن بن گئی۔ ایک دو اچھی پوسٹنگز ضرور ملیں۔ جب اس کی یہ شہرت اوپر تک پہنچی کہ یہ تو حد درجہ دیانت داری سے اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔ کام کرنے کے نت نئے راستے بناتا ہے۔ تو اس کی اس درجہ خاموش مخالفت شروع ہو گئی کہ پورے پچیس سے تیس برس اسے کھڈے لائن رہنا پڑا۔ اسے چیتا بننے کاشوق تھا۔

اسی ذاتی جنون میں مارا گیا۔ اس کے بالکل برعکس، کئی ایسے افسروں کو جانتا ہو، جو کبھی کسی سے بھی اختلاف نہیں کرتے۔ میٹنگز میں جو سینئر کہیں، ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ خوشامد کو ایک ہتھیار کی طرح استعمال کرتے رہے۔ یقین فرمائیے۔ انتہائی ادنیٰ کارکردگی کے باوجود ملک کے اعلیٰ ترین انتظامی عہدوں پر پہنچے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ہر حکومت انھیں پلکوں پر بٹھانے کے لیے تیار ہے۔ ان کی سرکاری کارکردگی اور عادات بالکل اونٹ جیسی ہیں۔ یہ لمبا عرصہ پیاسا رہنے کے بعد، ایک لمبا ہاتھ مار کر مکمل خاموش اور نیک ہو جاتے ہیں۔ یہ ہر صحرا کوبڑے آرام سے عبور کر لیتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو جب تک ایوب خان کی ہربے وقوفی اور اچھائی پر ہاں ہاں کرتے رہے۔ عروج ان کے قدموں میں رہا۔ تیسری دنیا کا سب سے کامیاب وزیرخارجہ گردانے جاتے تھے۔ جیسے ہی انھوں نے چیتا بننے کی کوشش کی۔ صرف پانچ برس کی قلیل مدت میں انھیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ محترمہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔

جب تک مزاحمت کرتی رہیں۔ بہادری کی داستان گمان کی گئیں۔ جیسے ہی انھوں نے اپنا رویہ مصالحانہ کیا۔ طاقتور ریاستی اداروں نے انھیں حکومت کا کچھ حصہ بطور تبرک دے ڈالا۔ زرداری صاحب نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھاہے۔ انھیں چیتا بننے کا کوئی شوق نہیں۔ اپنے سسر اور اہلیہ کو بہادری دکھاتے ہوئے، زیر زمین جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ لہٰذا انھوں نے مکمل طور پر صحرائی اونٹ کی اعلیٰ خصوصیات کو اپنا لیا۔ نتیجہ یہ کہ گزشتہ تیرہ برس سے سندھ پر ان کی حکومت نہیں بادشاہت ہے۔ محترم نواز شریف کے ساتھ بھی بالکل یہی کچھ ہوا۔ جب تک طاقت ور حلقوں کی ہر بات مانتے رہے۔

قائم و دائم رہے۔ ذرا سے پر پرزے نکالے۔ وزیراعظم بننے کی حقیقی کوشش کی۔ فوراً برخاست ہو کر پابند سلاسل ہو گئے۔ ہمت دلوانے والے پہلوان، فوراً طاقت ور فریق کے ساتھ مل گئے۔ وہ سب سے زیادہ ووٹ رکھنے کے باوجود دربدر ٹھہرے۔ غیر جمہوری صدور کا بھی یہی حال ہوا۔ جب تک بین الاقوامی طاقتوں کے بغل بچے رہے۔ مصنوعی مضبوطی سے حاکم نظر آتے رہے۔ مگر جب اپنے ملک کی بہتری کے لیے کوئی ناپسندیدہ بات کی۔ یہ خس و خاشاک کی طرح ہوا میں غائب ہوتے رہے۔

اس وقت بعینہ یہی سب کچھ کھلاڑی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ وہ ملک کے وزیراعظم ہیں مگر جس دن بھی انھوں نے حقیقی وزیراعظم بننے کی جسارت کی۔ تاریخ کے کوڑے دان میں موجود ہوں گے۔ اگر آپ نے اس ملک میں رہنا ہے تو بہتر یہی ہے کہ چیتا بننے کی حماقت بالکل نہ کریں۔ اونٹ کی خصوصیات کو اپنے اندر سمو لیجیے۔ اور ہاں۔ اگر بہت ترقی کرنی ہے، تو چرخ بننے سے بہتر کوئی راستہ نہیں۔

Check Also

Zara Bhoolna Seekhen

By Javed Ayaz Khan