اصل تارکین وطن کون ہیں
میرا نام اسد ہے۔ اقتصادیات میں ڈگری حاصل کر رہا تھا کہ والد صاحب وفات پا گئے۔ تعلیم چھوڑکر دبئی منتقل ہونا پڑا۔ آٹھ سال سے یہاں ٹیکسی چلا رہاہوں۔ نوجوان کی عمر تقریباً چالیس برس تھی اور بات چیت میں حد درجے متانت موجود تھی۔ تین سال سے پاکستان نہیں جا سکا۔ اسد کی بات سن کر میں چونک گیا۔
مگر کیوں؟ کمپنی تو آپ کو ہر سال تنخواہ کے ساتھ چھٹی دیتی ہے۔ اسد نے جواب دیا کہ چھٹیوں میں کام کرکے دگنا پیسہ کما لیتاہوں۔ اور اس طرح ملتان میں میری فیملی تھوڑی سی بہتر زندگی گزار لیتی ہے۔ کمانے والا صرف ایک ہوں۔ چھوٹے بھائی کو ایک مغربی ملک میں بھجوایا ہے۔
اور وہ بھی وہاں ٹیکسی چلاتاہے۔ اسدکی باتیں کافی دلچسپ تھیں۔ میں نجی کام کی وجہ سے کچھ دنوں کے لیے دبئی اور لندن گیاہوا تھا۔ اور حد درجہ مصروفیت کے عالم میں تھا۔ یہ ٹیکسی ڈائیور مجھے دبئی میں ملا اور تقریباً تیس منٹ کی مسافت پر ایک جگہ پر لے کر جا رہاتھا۔ عادت ہے کہ اب اکثر خاموش رہتا ہوں۔ کیونکہ زندگی میں اتنا اتار چڑھاؤ دیکھا ہے کہ بے مقصد گفتگو زندگی کا زیاں سا لگتا ہے۔ ویسے بھی عمر کے ساتھ ساتھ پختگی اور سنجیدگی کی کمان آپ کو گرفت میں لے لیتی ہے۔ اسد کی باتوں کو انہماک سے سن رہا تھا۔
پچھلے سال والدہ کا انتقال ہوگیا۔ کمپنی نے چھٹی نہیں دی۔ اور میں اپنی عزیز ترین ہستی کی تدفین میں شرکت نہیں کر سکا۔ اس کی آواز میں درد تھا۔ اور آنکھوں میں آنسو۔ گاڑی کو ایک طرف روک کر کہنے لگا کہ دل کا بوجھ ہلکا کر رہا ہوں۔ کیونکہ معلوم ہے کہ آپ ایک لکھاری ہیں۔ شاید میرے اور میرے جیسے ان گنت پاکستانیوں کی اصل صورتحال پر کچھ لکھ پائیں۔
جب اسد نے اپنی والدہ کے جنازے کی گفتگو کی تواس کی ہچکیاں بندھ گئیں اور ضبط کے سارے بندھن توڑ کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گیا۔ اپنی حالت ایسی ہوگئی جس میں میری آنکھوں میں سے بادل برسنے لگ گئے۔ خیر تیس منٹ کی مسافت میں اسد نے دبئی میں مقیم پاکستانی مزدروں، ٹیکسی ڈرائیوروں اور معمولی نوکری کرنے والوں کے متعلق کھل کر گفتگوکی۔ میں آدھی دنیا دیکھ چکاہوں اور اب سفر صرف اس صورت میں کرتا ہوں جب کوئی کاروباری معاملہ ہو۔ مگر اس ٹیکسی ڈرائیور یعنی اسد کی باتوں نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
اورایک بات بلکہ ایک نہیں دوباتیں۔ حد درجے کی سنجیدگی سے کہنے لگا کہ پاکستانی سیاست دانوں اور مقتدر لوگوں کے محل دبئی کے قیمتی ترین علاقوں میں ہیں۔ جن میں سے ایک علاقے کانام دبئی ہلز ہے۔ دبئی سے تھوڑا سا آگے ہمارے صف اول کے ایک سیاست دان نے ایک مکمل جزیرہ یا ایک ریاستی ٹکڑا خریدرکھاہے۔
اوراس میں محیرولعقول محلات موجود ہیں۔ یہ ملکی سیاست دان اکثر ٹی وی پر آ کر پاکستان کی تقدیر بدلنے کی باتیں کرتے ہیں۔ اور غریب آدمی کی قسمت بدلنے کابلند ونگ دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ اسد نے بہت سے ایسے پردہ نشینوں کے نام بتائے۔ جن کی جائیداد، کاروبار اور تجارتی سلطنتیں وہاں موجود ہیں۔ نام لیے بغیر عرض کرتا ہوں کہ ٹرالرں کی سب سے بڑی کمپنی سندھ کے ایک نوجوان سیاست دان کی ہے۔ آگے کیا عرض کروں بلکہ کیوں عرض کروں۔ دل توچاہتا تھا کہ اپنے ملکی حالات کامرثیہ اس ٹیکسی ڈرائیورکے سامنے جگر پیٹ کر بیان کروں۔ مگر ایسا کرنہ پایا۔
ہاں اب دوسرے نقطے کی طرف ضرورآؤں گا۔ پچھلے مہینے دبئی کاکوئی قومی تہوار تھا۔ اس دن عام تعطیل تھی۔ لاکھوں لوگ اپنے ملک سے محبت کرنے کے جذبے سے سرشار ہوکر ایک بہت بڑے میدان میں جمع ہو رہے تھے۔ لاکھوں آدمی، ان گنت گاڑیاں اوربے شمار جھنڈے۔ اس موقع پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے کئی لوگوں نے اپنی گاڑیوں کے پیچھے بانی تحریک انصاف کی تصاویں لگائی ہوئی تھیں۔
اس کے علاوہ میں نے چند مقامی شہریوں کی گاڑیوں کے پیچھے بھی ایسی ہی تصاویر دیکھیں۔ مجھے یہ توگمان تھاکہ تحریک انصاف سے عشق کرنیوالے تارکین وطن کے علاوہ کچھ مقامی لوگ بھی بانی تحریک انصاف کی تصاویر اپنی گاڑیوں پر سجاتے ہیں۔ شایدہمیں یہاں احساس نہیں ہے کہ ہمارے پاکستانی بھائی اوربہنیں جوغیرممالک میں محنت کرکے، ملک میں موجود اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں۔ وہ کتنے کرب کی زندگی گزار رہے ہیں۔
اوروہ پاکستان کے سیاسی حالات سے کس قدر بددل ہیں۔ میں ان کی عظمت کوسلام پیش کرتا ہوں۔ وہ اصل پاکستانی ہیں جو ملک کی معیشت اپنے لہوسے چلا رہے ہیں۔ اگر یہ پاکستان میں پیسہ بھیجنا بندکر دیں توپاکستان کا معاشی ڈھانچہ زمین بوس ہو جائے گا۔
میرا ملکی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ سچ پوچھئے تومیں سیاست کے داؤ پیج بچپن سے دیکھ رہاہوں۔ مگر کبھی بھی سیاست دانوں پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ معاملہ بانی تحریک انصاف کا نہیں ہے۔ آنے والے چناؤ کا مسئلہ بھی معمولی سا ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں اور قائدین کے ساتھ ہونے والا سلوک بھی اب کسی اہمیت کاحامل نہیں۔ مسئلہ صرف ایک ہے اورمقتدر طبقے اس سے بھرپورطریقے سے واقف ہیں۔ لیکن وہ بھی نظریں چرا رہے ہیں۔ بانی تحریک انصاف کا سیاسی اور سماجی قد اب وزیراعظم کے رتبے سے بڑھ چکاہے۔
قیاس ہے کہ اب وہ بذات خود ہر سرکاری عہدے سے بڑا ہوچکاہے۔ قطعاً یہ عرض نہیں کر رہا کہ بانی تحریک انصاف نے اپنے دور اقتدار میں مہیب غلطیاں نہیں کیں۔ بالکل کی ہیں۔ لیکن اب مختلف سنجیدہ سوالات اٹھ چکے ہیں۔ کیا بانی تحریک انصاف عوامی سطح پر کسی بھی طورپر کمزورہواہے؟ کیا جیل میں رہنے سے اس کی سیاست پر کوئی فرق پڑا ہے؟ کیا اس کے بغیر پاکستان میں کسی قسم کا سیاسی استحکام آ سکتا ہے؟
ان تمام سوالات کا جواب ہر ایک کو معلوم ہے۔ بطور وزیراعظم بانی تحریک انصاف کی مقبولیت ہر درجے کمزور سطح پر تھی۔ اس کی ہمیشہ بے ترتیب سے فیصلے کرنے کی عجلت پر انگلیاں اٹھائی جاتی تھیں۔ تمام فہمیدہ طبقے خان صاحب کی سیمابی طبیعت سے گھبرا چکے تھے۔
ان کی اپنی کمزور سیاسی ٹیم تحریک انصاف کو زمین میں دفن کر چکی تھی۔ مگر جب اسے وزارت اعظمیٰ سے نکالا گیا توآہستہ آہستہ ا س کے بیانیہ نے دلوں میں جگہ بنانی شروع کردی۔ جن لوگوں نے اس پر مقدمات قائم کرکے اسے پابند سلاسل کیا، انھیں احساس ہی نہیں تھا کہ وہ بانی تحریک انصاف اوراس کی سیاسی پارٹی پر کتنا احسان کر رہے ہیں۔ غیر متعصب تجزیہ کھل کر بتا رہاہے کہ اب خان کوسیاسی شکست نہیں دی جاسکتی۔ سوشل میڈیا پر اس کا بیانیہ، مجہول ہونے کے باوجود لوگوں کوپسند آ چکاہے۔
شدید ترین جذباتیت نوجوان طبقے کواپنی گرفت میں لے چکی ہے۔ اس جذباتیت سے ملک ترقی کرے گا یا نہیں۔ اس کے متعلق ہر طرح کی رائے موجود ہے۔ گزارش کرنے کامقصدصرف ایک ہے کہ جن لوگوں نے بانی تحریک انصاف کومقدمات اور جیل کے ذریعے کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔
دراصل وہ تحریک انصاف اور اس کے قائدین کے سب سے بڑے محسن ہیں۔ مسلم لیگ ن، کوئی سیاسی بیانیہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ کچھ ادارے مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مگرمسلم لیگ ن کو عوامی پذیرائی نہیں مل رہی۔ تین بار وزیراعظم رہنے والا شخص کھل کر الیکشن کی مہم چلانے سے جھجھک رہا ہے۔ کیا برادر خوردعوام کو اپنا ہمنوا بنا سکتا ہے۔ یہاں کے پی کی سیاست کے دو کرداروں کاذکرکرنا قومی مفادات میں ضروری سمجھتا ہوں۔ پوری دنیا میں غزہ کے لیے بھرپورہمدردی کے جذبات ہیں۔ مغربی ممالک کے لوگ بہت بڑی تعداد میں اسرائیل کے خلاف فقید المثال جلسے کر رہے ہیں۔
مگر مسلمان ممالک میں سے ایک قائدبھی حماس کی قیادت کوملنے قطر نہیں گیا۔ اس لیے کہ ہرمسلمان ملک اپنے قومی مفادات کوترجیح دے رہا ہے۔ اور یہی موجودہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ مگر حماس کی قیادت کوملنے کے لیے کے پی سے تعلق رکھنے والے مذہبی جماعتوں کے دو جید سیاست دان قطر تشریف لے گئے اور حماس کی اولین قیادت کے ساتھ فوٹو سیشن کروائے۔
اس سے پاکستان کوسفارتی سطح پر کتنی مشکلات کاسامنا کرنا پڑا۔ اسے بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ ہندوستان کی قیادت نے ہمارے مذہبی جماعتوں کے قائدین اورحماس کی قیادت کے درمیان ہونے والی میٹنگز کواتنا منفی طور پر پیش کیا کہ پاکستان کو مزیدسفارتی تنہائی کا شکار ہونا پڑا۔
خیر یہ بات کسی اوروقت کے لیے اٹھا رکھتاہوں۔ آج کاکالم تو اسد جودبئی میں ٹیکسی چلاتا ہے کے نام ہے۔ گزارش ہے کہ اصل تارکین وطن کون ہیں۔ ملک کا خون چوسنے والی اعلیٰ ترین قیادت یا اپنے خون پسینے سے ملک کی معیشت کو کھڑارکھنے والے بیرون ملکوں میں کام کرنے والے محنت کش!